سال 2024 میں ہونے والے ایسے انتخابی معرکے جو پوری دنیا کے لیے اہم ہیں

دنیا کی نصف سے زائد آبادی اگلے برس الیکشن کے لیے اپنے ووٹ کا حق استعمال کرے گی۔

پاکستان میں فروری 2024 میں الیکشن کے انعقاد کا اعلان ہو چکا ہے اور آئندہ برس امریکہ، بھارت اور روس سمیت دنیا کے تقریباً 30 ممالک میں عام انتخابات ہونا ہیں۔ اس اعتبار سے دنیا کی نصف سے زائد آبادی اگلے برس الیکشن کے لیے اپنے ووٹ کا حق استعمال کرے گی۔

اگلے سال ہونے والے انتخابات نہ صرف ان ممالک کے لیے اہمیت کے حامل ہیں بلکہ ان میں سے بعض ممالک کے الیکشن کے نتائج کو عالمی سیاست کے لیے بھی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

سیاسی مبصرین کی نظریں آئندہ برس ہونے والے انتخابات پر جمی ہیں۔

امریکہ

پانچ نومبر 2024 کو کروڑوں امریکی رائے دہندگان فیصلہ کریں گے کہ صدر جو بائیڈن اپنے عہدے پر برقرار رہیں گا یا ان کی جگہ کسی اور صدر کا انتخاب ہو گا۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق امریکہ کے صدارتی الیکشن کے لیے ہونے والی مہم میں غلط معلومات کا پھیلاؤ یا ’ڈس انفارمینش‘ ایک اہم مسئلہ رہے گا۔

گزشتہ انتخابات کے نتائج کے اعلان کے بعد سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے کیپٹل ہل پر دھاوا بول دیا تھا۔ اس واقعے کو بھی انتخابی عمل سے متعلق غلط معلومات کے پھیلاؤ کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔

اگرچہ سابق صدر ٹرمپ کو مختلف فوج داری مقدمات کا سامنا ہے تاہم وہ ری پبلکن پارٹی میں صدارتی نامزدگی حاصل کرنے کے لیے مضبوط ترین امیدوار سمجھے جا رہے ہیں۔

پوٹن کی نظر آئندہ چھ برس پر

ولادیمیر پوٹن گزشتہ 23 برس سے روس میں حکمراں ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد روس کے صدر بننے والے بورس یلسن سے انہیں 1999 میں اقتدار منتقل ہوا تھا۔

امکان ظاہر کیا جا رہا ہے وہ آئندہ برس مارچ میں ہونے والے صدارتی الیکشن لڑیں گے۔ مبصرین کے مطابق سال 2020 میں انہوں نے آئین میں ایک ایسی ترمیم کرالی تھی جس کی بنیاد پر وہ 2036 تک اقتدار میں رہ سکتے ہیں۔ اس ترمیم کے نتیجے میں وہ چھ، چھ برس کی دو صدارتی مدت کے لیے الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں۔

اگر پوٹن ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو وہ روس پر جوزف اسٹالن سے بھی طویل عرصے تک حکومت کرنے والے حکمراں بن جائیں گے۔

مبصرین کے مطابق صدر پوٹن نے جس طرح یوکرین پر حملے کے بعد ملک میں اختلافی آوازوں کو دبایا ہے تو اس کے پیشِ نظر یہ امکان کم ہے کہ اگر پوٹن متوقع طور پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو کوئی ان کے مقابلے کے لیے انتخابی میدان میں اترے گا۔

روس میں ان کے دیرینہ سیاسی حریف الیکسی نوالنی 19 سال کی قید کاٹ رہے ہیں۔ یوکرین جنگ میں حصہ لینے والے قوم پرست بلاگر اگور گرکن کو انتخابات میں صدر پوٹن کا ممکنہ حریف سمجھا جا رہا تھا اور انہوں نے الیکشن میں حصہ لینے کا ارادہ بھی ظاہر کیا تھا۔ تاہم انہیں غیر معینہ مدت تک قید کر دیا گیا ہے۔

بھارت میں مودی کا ’پاور پلے‘

آئندہ برس بھارت کے لگ بھگ ایک ارب رائے دہندگان اپریل اور مئی کے دوران جاری رہنے والے قومی انتخابات میں اپنے ووٹ کا استعمال کریں گے۔ آبادی کے اعتبار سے دنیا کے سب سے بڑے ملک میں ہونے والے انتخابات کو دنیا کی سب سے بڑی انتخابی سرگرمی قرار دیا جاتا ہے۔

سال 2024 کے انتخابات میں وزیرِ اعظم نریندر مودی اور ان کی قوم پرست سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) تیسری بار مرکزی حکومت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہو گی۔

مودی کا سیاسی کرئیر اور کامیابی کو بھارت کے ہندوؤں سے حاصل ہونے والی حمایت کا مرہونِ منت قرار دیا جاتا ہے۔ ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ مودی نے ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں سے ہندوؤں کے اختلافات کو ہوا دے کر سیاسی کامیابی حاصل کی ہے۔

SEE ALSO: پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات: 2024 سے قبل مودی اور راہل گاندھی کی مقبولیت کا امتحان

نریندر مودی پر شہری آزادیوں کے خلاف اقدامات اور حقوق کے لیے کام کرنے والے مختلف کارکنوں پر کریک ڈاؤن کرنے جیسے الزامات بھی ہیں تاہم ان کے حامی انہیں عالمی اسٹیج پر بھارت کا مضبوط امیج پیش کرنے کا کریڈٹ دیتے ہیں۔

بھارت نے رواں برس اگست میں بغیر کسی انسان سوار مشن چاند پر بھیج کر ایسا کرنے والا دنیا کا چوتھا ملک بن گیاتھا۔ بھارت آئندہ برس چاند پر انسان اتارنے کے مشن کا بھی اعلان کر چکا ہے۔

آئندہ برس انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقابلے کے لیے بھارت کی 26 اپوزیشن پارٹیوں نے ’انڈیا‘ کے نام سے اتحاد بنایا ہے۔ اس اتحاد میں انڈین نیشنل کانگریس نمایاں ترین سیاسی جماعت ہے جب کہ بھارت کی ریاستوں اور خطوں میں سیاسی حمایت رکھنے والی جماعتیں بھی اس کا حصہ ہیں۔

سال 2024 جنوبی ایشیا میں انتخابات کے لیے حوالے سے اس لیے بھی اہم ہے کے اس میں خطے کے چار ممالک بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں انتخابات ہونے والے ہیں۔

یورپی یونین کے لیے آزمائش

یورپی اقوام کی پارلیمنٹ کے انتخابات کو دنیا میں مختلف ملکوں تک پھیلا سب سے بڑا انتخابی عمل کہا جاتا ہے۔ آئندہ برس جون میں یورپی یونین میں شامل 27 ممالک کے تقریباً 40 کروڑ رائے دہندگان یورپی پارلیمنٹ کے 720 ارکان کا انتخاب کریں گے۔

منتخب ہونے والے نمائندے خطے کے ان ممالک میں موبائل فون رومنگ کے چارجز سے لے کر آن لائن ڈیٹا کی راز داری یا پرائیویسی سے متعلق کئی اہم امور کے بارے میں پالیسی سازی کرتے ہیں۔

SEE ALSO: گیرت ولڈرز کی کامیابی پر نیدرلینڈز کی مسلم کمیونٹی تشویش کا شکار

یورپی یونین کے آئندہ الیکشن ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب یورپ میں دائیں بازو کے نظریات کے حامل رہنماؤں اور جماعتوں کی مقبولیت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور انہیں اپنے ممالک میں انتخابی کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں۔

حال ہی میں نیدرلینڈز کے انتخابات میں اسلام مخالف اور یورپی یونین سے علیحدگی کے حامی گیرت ولڈر کی جماعت نے انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ اسی طرح گزشتہ برس اٹلی میں بھی انتہائی دائیں بازو کی ’برادرز آف اٹلی‘ پارٹی نے الیکشن جیتا تھا جس کے بعد وہاں جیورجیا میلونی کی حکومت قائم ہوئی تھی۔

گیرت ولڈرز کی کامیابی پر فرانس کے انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے رہنما جورڈن برڈیلا نے اپنی فیس بک پوسٹ پر لکھا تھا کہ "جون میں بھی یہ جاری رکھیں۔"

مبصرین کے مطابق یورپ میں دائیں بازو کی جماعتوں کو تارکین وطن، معیشت اور یوکرین جنگ سے متعلق مؤقف کی وجہ سے مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔ دائیں بازو کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے آئندہ انتخابات کو یورپی یونین کے لیے آزمائش قرار دیا جا رہا ہے۔

اس تحریر کے لیے زیادہ تر معلومات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔