پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد میں چند ہی ہفتے رہ گئے ہیں اور سماجی رابطے کی ویب سائیٹس پر بہت سے لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ انتخابات تو ہو چکے ہیں بس پولنگ ہونا باقی رہ گیا ہے۔ یوں عام لوگوں میں یہ خدشات ابھرے لگے ہیں کہ شاید یہ انتخابات منصفانہ نہ ہوں۔
کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق بعض اُمیدواروں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ پارٹی ٹکٹ پر انتخاب نہ لڑیں کیونکہ اُنہیں کہیں اور ’’ایڈجسٹ‘‘ کیا جارہا ہے۔ ہیومن رائٹس کمشن آف پاکستان کے سربراہ آئی اے رحمان کا کہنا ہے کہ 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں نادیدہ قوتوں کی مداخلت اور سیاسی قوتوں کا جوڑ توڑ اتنا شدید ہو گیا ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
امریکہ کے معروف تھنک ٹینک کیٹو انسٹی ٹیوٹ کی فیلو اور جنوبی ایشیائی اُمور کی ماہر سحرخان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اس سے اختلاف کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ قبل از وقت دھاندلی کا الزام لگانا یا اس کا تاثر دینا آئندہ انتخابات پر اثر انداز ہونے کے مترادف ہو گا۔
اُن کا کہنا ہے کہ فوج انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہی ہے اور اس بات کے واضح اشارے موجود ہیں کہ اس مرتبہ فوج عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کی حمایت کرے گی۔ تاہم وہ کہتی ہیں کہ فوج اور عدلیہ کو انتخابات میں مداخلت سے دور رہنا چاہئیے۔
امریکہ کے ایک اور معروف تھنک ٹینک یونائیٹڈ انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں ایشیا سینٹر میں ایسو سی ایٹ نائب صدر ڈاکٹر معید یوسف کہتے ہیں کہ اس مرتبہ ہونے والے انتخابات کے نتائج کا پہلے سے اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہے اور اس بات کو قطعاً خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ نواز شریف کی مسلم لیگ نون ہی ان انتخابات میں کامیابی حاصل کر لے۔
تاہم بعض سیاسی تجزیہ کاروں نے پیش گوئی کی ہے کہ آئندہ انتخابات میں کسی بھی جماعت کو اکثریت حاصل نہیں ہو گی اور کئی سیاسی جماعتوں پر مشتمل حکومت وجود میں آئے گی۔ اُن کا کہنا ہےکہ اس انداز میں وجود میں آنے والی حکومت میں وزیر اعظم کے عہدے کی اہمیت بھی کم ہو جائے گی کیونکہ حکومت کی ڈوریں کہیں اور سے ہلائی جائیں گی۔
سحر خان کے مطابق یہ انتخابات اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ مسلسل تیسری مرتبہ ان کا انعقاد کیا جا رہا ہے جو بذات خود ایک خوش آئیند بات ہے۔
دوسری جانب ہیومن رائیٹس کمشن آف پاکستان کے آئی اے رحمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بعض فوجی حلقوں کی جانب سے ملک کے بڑے میڈیا گروپوں کو خاموش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بقول اُن کے ایک میڈیا ہاؤس کو کچھ موضوعات کی ایک فہرست تھما دی گئی اور کہا گیا کہ وہ اپنی تحریروں میں ان موضوعات کا ذکر ہرگز نہ کریں۔
معروف انگریزی روزنامے ’’ڈان‘‘ نے بھی حال ہی میں اپنے ایک اداریے میں لکھا ہے کہ ملک بھر میں کچھ مخصوص علاقوں میں اخبار کی تقسیم کو متاثر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ہاکروں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ آئی اے رحمان کہتے ہیں کہ ایسا کرتے ہوئے آئندہ انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ان حالات میں سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر وائرل ہونے والا یہ بیان معنی خیز دکھائی دینے لگا ہے کہ ’’انتخابات ہو چکے، بس پولنگ ہونا باقی ہے۔‘‘