بلوچستان: کوئلے کی کانوں میں ایک ہفتے میں 8 کان کن ہلاک

فائل

بلوچستان کے پانچ اضلاع میں کوئلے کی ڈھائی ہزار سے زائد کانیں موجود ہیں جہاں سے 40 ہزار سے زائد مزدور سالانہ 90 لاکھ ٹن سے زیادہ کوئلہ نکالتے ہیں۔

پاکستان کے صوبے بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں ایک ہفتے کے دوران پیش آنے والے تین مختلف حادثات میں آٹھ کان کنوں کی ہلاکت نے صوبے میں اس صنعت سے وابستہ ہزاروں مزدوروں کو پریشان کردیا ہے۔

تازہ ترین حادثہ منگل کو ضلع دُکی میں پیش آیا تھا جہاں ایک کان میں زہریلی گیس بھرجانے کے باعث ایک کان کن ہلاک اور ایک بے ہوش ہوگیا تھا۔

اس واقعے سے ایک روز پہلے ہرنائی کے علاقے ڈمب میں کوئلے کی کان میں زہریلی گیس بھرنے سے تین کان کن ہلاک جب کہ 8 ستمبر کو ضلع کوئٹہ کے علاقے سورینج میں بھی ایک کان میں زہریلی گیس سے چار کان کن ہلاک اور دو بے ہوش ہوگئے تھے۔

کان کنوں کی ہلاکت کی وجوہات کے بارے میں کول مائنز لیبر یونین کے رہنما بخت محمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کو ئلے کی کانوں کے اندر جان لیوا گیس اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب کان میں داخل ہونے والے راستے کے علاوہ زہریلی گیس کے اخراج اور تازہ ہوا کے داخل ہونے کا متبادل راستہ نہ ہو۔

انہوں نے بتایا کہ گیس کان کے اندر جمع ہونے کی صورت میں جب کان کن، کان کے اندر گھینتی سے کام کرتے ہیں تو اس سے اسپارک پیدا ہوتا ہے جس سے اکثر کان کے اندر دھماکہ ہو جاتا ہے۔

بخت محمد نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ تین سال کے دوران کان کے اندر گیس بھرنے کے 30 واقعات پیش آچکے ہیں جن میں 36 سے زائد کان کن لقمہ اجل بنے۔

فائل فوٹو

ان کے بقول کان کے زمین میں دھنس جانے، کو ئلہ نکالنے والی ٹرالی کے گرنے، بجلی کے شارٹ سرکٹ سے آگ لگنے اور اسی نوعیت کے دیگر حادثات میں مرنے والے مزدوروں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

بخت محمد کے بقول ہر کوئلہ کان کے اندر ہوا کے رُخ کے مطابق تازہ ہوا کی آمد کے انتظام کو یقینی بنانا کان کے مالک اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح نئی اور پرانی کانوں میں تازہ ہوا اور فوری طبی امداد کے لیے ضروری سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ذمہ داری محکمہ کول مائنز کے متعلقہ افسران عائد ہوتی ہے۔

بخت محمد نے متعلقہ سرکاری افسران پر رشوت خوری اور کان مالکان سے مراعات لینے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ کانوں کے اندر ہونے والے تمام حادثات کی ذمہ داری ان افسران پر عائد ہوتی ہے جو ان کے بقول اپنے فرائض سے غفلت برتتے ہیں۔

اُن کے بقول یہ افسران پانچ یا چھ ماہ کے عر صے میں صرف ایک بار سڑک کے قریبی علاقوں میں واقع کانوں کا دورہ کرتے ہیں جبکہ دور دراز پہاڑی علاقوں میں واقع کانوں کا ان افسران نے کبھی دورہ نہیں کیا اور زیادہ تر حادثات پہاڑی علاقوں میں واقع کانوں میں ہی ہوتے ہیں۔

بخت محمد نے بتایا کوئلے اور دیگر معدنیات کی کانوں کے لیے بلوچستان کی حکومت 1923ء کے ایکٹ کے تحت لائسنس جاری کرتی ہے اور صوبائی حکومت کو فوری طور پر اس سلسلے میں نئی قانون سازی کرنی چاہیے۔

فائل فوٹو

حکومت بلوچستان کے محکمہ مائنز اور منرلز کے مطابق قدرتی وسائل سے مالامال پاکستان کے اس جنوبی مغربی صوبے کے پانچ اضلاع کوئٹہ، لورالائی، سبی، بولان اور ہرنائی میں کوئلے کے کروڑوں ٹن ذخائر ہیں۔

ان پانچ اضلاع میں کوئلے کی ڈھائی ہزار سے زائد کانیں موجود ہیں جہاں سے 40 ہزار سے زائد مزدور سالانہ 90 لاکھ ٹن سے زیادہ کوئلہ نکالتے ہیں۔

یہ کوئلہ پاکستان کے مختلف صوبوں میں اینٹ بنانے والے بھٹوں اور سیمنٹ کے کارخانوں میں بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ حکومت بلوچستان ان کانوں سے نکالے جانے والے کو ئلے پر 18 فی صد ٹیکس (لگ بھگ 1800 روپے فی ٹن) وصول کرتی ہے۔

حکومت بلوچستان کے محکمہ کول مائنز کے انسپکٹر جنرل افتخار احمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کان کن عید کے موقع پر 10، 12 روز کے لیے چھٹی پر چلے جاتے ہیں اور اس دوران کان میں کوئی داخل نہیں ہوتا۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقفے کے دوران عموماً کانوں میں زہریلی گیس جمع ہو جاتی ہے اور حادثات پیش آتے ہیں جن سے بچنے کے لیے ان کے بقول ضرورت ہے کہ کان کن کان میں داخلے سے قبل اس کا معائنہ کرائیں۔

انہوں نے کان کے اندر تازہ ہوا نہ آنے سے متعلق یونین رہنما کے دعوے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ حادثے کے بعد اگر کان کے اندر تازہ ہوا نہ آتی تو وہاں سے لاشوں کو نکالنا ممکن ہی نہ ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ حادثات کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو جلد حکومت کو رپورٹ پیش کرے گی۔

کان کنوں کا دعویٰ ہے کہ کانوں مین ہونے والے حادثات کے بعد وہاں سے لاشیں نکالنے کے لیے حکام آکسیجن سیلنڈر کے ساتھ ماسک پہن کر کان کے اندر داخل ہوتے ہیں اور اگر یہی سامان کان کنوں کے پاس بھی پہلے سے موجود ہو تو شاید حادثات میں جانی نقصان بھی کم ہو۔

کوئلے کے زیرِ زمین ذخائر کے لیے کان مالکان پہلے کم از کم ڈیڑھ سے دو سو فٹ تک زمین کے اندر کھدائی کرتے ہیں جس کے بعد کو ئلہ نکالا جاتا ہے۔ بعض علاقوں میں ایک ہزار فٹ تک بھی کھدائی کرنا پڑتی ہے۔

بلوچستان کے مختلف اضلاع میں قائم کوئلہ کی کانوں میں اس سے قبل بھی مہلک حادثات پیش آتے رہے ہیں۔ سنجدی کے علاقے میں قائم کوئلے کی ایک کان میں 2011 میں ہونے والے گیس کے دھماکے میں 50 مزدور ہلاک ہو گئے تھے۔