مصر: عسکریت پسندوں پر چھاپے میں 54 پولیس اہل کار ہلاک

مصر کے صحرائئ علاقے البہاریہ کا نقشہ

مقامی میڈیا کی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ عسکریت پسندوں کا تعلق حسم موومنٹ سے تھا، جس کے بارے میں مصر کی سیکیورٹی فورسز کا دعوی ہے کہ اس تحریک کے رابطے اخوان المسلمون سے ہیں۔

مصر کے صدرمقام قاہرہ کے قریب عسکریت پسندوں کے ایک ٹھکانے پر پولیس کے چھاپے بعد چھڑنے والی لڑائی کے نتیجے میں کم ازکم 54 پولیس اہل کار ہلاک ہو گئے۔

ایک حکومتی عہدے دار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پولیس اہل کاروں کو بظاہر جمعے کی رات عسکریت پسندوں نے گھات لگاکر نشانہ بنایا۔

عہدے دار کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب پولیس نے قاہرہ کے قریب مغربی صحرائی علاقے البہاریہ میں عسکریت پسندوں کے ایک خفیہ ٹھکانے پر حملہ کیا۔

ایک سینیئر سیکیورٹی عہدے دار کا کہنا تھا کہ پولیس اہل کار پانچ گاڑیوں میں عسکریت پسندوں کے ٹھکا نے پر پہنچے، لیکن اس دوران عسکریت پسندوں نے اچانک حملہ کر دیا۔انہوں نے حملے میں راکٹ گرینیڈ اور دھماکہ خیز مواد استعمال کیا۔

عہدے دار نے بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں 20 افسر اور 34 سپاہی شامل ہیں۔

مصر کی وزارت داخلہ نے ہفتے کے روز اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہمارے کئی جوان ہلاک ہوئے ہیں، تاہم وزارت نے اس سلسلے میں مزید کوئی تفصیل نہیں بتائی۔

ابھی تک کسی گروپ نے ان ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعوی نہیں کیا۔ لیکن مقامی میڈیا کی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ عسکریت پسندوں کا تعلق حسم موومنٹ سے تھا، جس کے بارے میں مصر کی سیکیورٹی فورسز کا دعوی ہے کہ اس تحریک کے رابطے اخوان المسلمون سے ہیں۔

اخوان المسلمون وہ گروپ ہے جو مصر میں کچھ عرصہ برسراقتدار رہ چکا ہے۔

اخوان المسلمون نے حسم تحریک سے کسی بھی قسم کے تعلق سے انکار کیا ہے۔

جمعے کے روز ہونے والا حملہ اس سال مصر کے مہلک ترین سیکیورٹی چھاپوں میں تازہ ترین ہے۔

مصر کی سیکیورٹی فورسز ملک بھر میں اسلامی عسکریت پسندی پر قابو پانے کے لیے اپنی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔

مصر ملک میں ابھرتی ہوئی عسکریت پسندی پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہے۔ مصر میں عسکریت پسندوں کو داعش کی پشت پناہی حاصل ہے جس نے سینائی کے شمالی حصوں میں اپنے ٹھکانے قائم کر لیے ہیں۔ تاہم حکومتی کوششوں کو ملک کے مرکزی حصوں میں حملوں کی تازہ لہر سے نقصان پہنچا ہے۔

ملک میں پہلی بار آزادانہ انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والے صدر محمد مرسی کو فوج کی جانب سے 2013 میں برطرف کیے جانے کے بعد سے سیکیورٹی فورسز پر گھات لگاکر کیے جانے والے حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔