تحریر چوک مظاہرہ: سابق حکومت کے وزرا اور پولیس والوں کی جیل سے رہائی پر احتجاج

التحریر چوک پر ہونے والا احتجاجی مظاہرہ

مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ سابق حکومت کے بدعنوان وزرا کی جیلوں سے رہائی اور اُن پولیس والوں کو ضمانت پر رہا کرنے کے فیصلے پر احتجاج کے لیے جمع ہوئے ہیں جِن پر الزام ہے کہ اُنھوں نے جنوری میں سوئیز کے شہر میں مظاہرین کو ہلاک کیا

جمعے کے دِن قاہرہ کے تحریر اسکوائر اور متعدد دوسرے شہروں میں ہزاروں لوگ جمع ہوئے اور اُنھوں نے اصلاحات میں تیزی لانے کا مطالبہ کیا اور ساتھ ہی سابق حکومت کے وزرا اور پولیس والوں کی جیل سے رہائی پر احتجاج کیا۔

’وائس آف امریکہ‘ کے نمائندے نے قاہرہ سے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ جنوری اور فروری میں 18دِنوں کے مظاہروں کے بعد سے اب تک جتنے مظاہرے ہوئے ہیں اُن میں یہ بھی ایک بڑا مظاہرہ تھا۔

مظاہرین کا ایک گروپ سابق حکومت کے ارکان اور پولیس والوں کے خلاف ، جنِھوں نے جنوری اور فروری میں مظاہرین کو نشانہ بنایا تھا، کارروائی کرنے کے لیے نعرے بلند کیے۔تاہم، بیشتر یہ ایک جشن کا سماں تھا، جہاں ایک فٹ بال کے میدان کی سائز کا مصری پرچم بھی تھا اور بچوں نے اپنے چہروں پرمصر کے جھنڈے کی تصویر بنا رکھی تھی۔

ایک بچے کے بقول،’ ہم آج یہاں اِس لیے جمع ہیں کہ اپنے انقلاب کو جاری رکھ سکیں‘۔

احمد علی ایک نوجوان ورکر ہے۔ اُس نے کہا کہ وہ متعدد بار احتجاج کے لیے تحریر اسکوائر میں آچکا ہے۔ اُن کے الفاظ میں: ’قاتل اب جیل سے باہر ہیں اور آزاد ہیں۔ اُنھوں نے بچوں کو ہلاک کیا۔ اُنھوں نے ہمارے بھائیوں کو مارا ہے۔ اُنھوں نے ہمارے والد کو ہلاک کیا ہے۔ ہمیں انصاف چاہیئے۔‘

علی اور تحریر اسکوائر میں جمع ہونے والے دوسرے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ سابق حکومت کے بدعنوان وزرا کی جیلوں سے رہائی اور اُن پولیس والوں کو ضمانت پر رہا کرنے کے فیصلے پر احتجاج کے لیے جمع ہوئے ہیں جِن پر الزام ہے کہ اُنھوں نے جنوری میں سوئیز کے شہر میں مظاہرین کو ہلاک کیا۔

ڈاکٹر نغمہ عمر بھی مظاہرین میں شامل تھیں۔اُن کے الفاظ میں: ’انقلاب دو یا تین مہینے پہلے شروع ہوا تھا۔ تاہم، یہ ختم نہیں ہوا۔ ہم اُن لوگوں میں شامل ہیں جنھوں نے اِس کا آغاز کیا اور ہم پر لازم ہے کہ اُسے منطقی انجام تک پہنچائیں۔‘

اِس سوال کے جواب میں کہ آج کے مظاہرے سے اُن کی کیا امیدیں وابستہ ہیں، اُنھوں نے کہا: ’کچھ بھی نہیں ہوگا، لیکن ہمیں دباؤ جاری رکھنا ہے۔‘

مصر کے سابق وزیرِ خارجہ امر موسیٰ نے بھی تحریر اسکوائر کا مختصر دورہ کیا۔ وہ حال ہی میں عرب لیگ میں سکریٹری جنرل کے عہدے سے سبک دوش ہوئے ہیں۔توقع ہے کہ وہ مصر کی صدارت کے لیے انتخاب لڑیں گے۔

اُنھوں نے’ وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ اِس قسم کے مظاہرے ضروری ہیں، تاکہ اِس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ آگے چل کر انقلاب کامیابی سے ہم کنار ہوگا۔

اُن کے الفاظ میں: ’یہاں لوگوں کے درمیان موجود ہونا اور جوش و خروش سے استقبال کیا جانا میرے لیے باعثِ افتخار ہے۔ ہم تبدیلی چاہتے ہیں۔ اور ہم آگے قدم بڑھائیں گے۔ ہم خوش حالی، استحکام اور جمہوریت چاہتے ہیں۔ اور اِس بات کے خواہش مند ہیں کہ لوگوں کی آواز سنی جائے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مصر کی حکومت کے لیڈروں کو سڑکوں پر لوگوں کے جذبات کا احساس ہے۔‘

جمعرات کے دِن 25سابق عہدے داروں پر، جِن میں سے متعدد کافی سینئر عہدے دار تھے، اُس وقت لوگوں کی ہلاکت میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے جب فروری میں پولیس والوں نے جو گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار تھے مظاہرین پر حملہ کیا تھا۔

اِس کے علاوہ وزیرِ داخلہ نے وعدہ کیا ہے کہ مظاہرین پر کیے جانے والے حملوں میں ملوث پولیس والوں اور سینئر کمانڈرز کو نوکری سے نکال دیا جائے گا۔

آڈیو رپورٹ سنیئے: