البرادی حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت کے لیے مصر واپس پہنچ گئے

محمد البرادی قاہرہ ایرپورٹ پر اپنی واپسی کے بعد میڈیا سے بات کررہے ہیں۔

محمد البرادی مصری صدر حسنی مبارک کی حکومت کے خلاف مظاہروں میں حصہ لینے کے لیے قاہرہ پہنچ گئے ہیں۔ البرادی اسٹریا سے جمعرات کی شام مصر واپس پہنچے۔ واپس پہنچنے پر اپنے حامیوں کے ایک چھوٹے گروپ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ “مصر کے لیے ایک نازک وقت” ہے۔

وطن واپسی سے پہلے آسٹریا میں اقوام متحدہ کی جوہری مائنے کی تنظیم کے سابق سربراہ نے کہا تھا کہ وہ حسنی مبارک کے 30 سالہ دور اقتدار کو چیلنج کرنے لے لیے مصر واپس جائینگے۔

مصر میں حکومت مخالف مظاہروں کے منتظمین نےکل بروز جمعہ بڑے پیمانے پر احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ احتجاج کا مرکز دارالحکومت قاہرہ ہوگا جہاں ان کے دعویٰ کے مطابق ایک بہت بڑی ریلی منعقد کی جائے گی۔

حزبِ مخالف کی جماعتوں کی جانب سے نئے مظاہروں کے اعلان اور ان میں عوام کی شرکت یقینی بنانے کیلیے سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس اور موبائل فون پر میسجز کا سہارا لیا جارہا ہے۔

البرادعی مصر پہ 1981 سے برسرِ اقتدار حسنی مبارک کے خلاف ایک اہم متوقع صدارتی امیدوار تصور کیے جاتے ہیں۔

دریں اثناء گزشتہ تین روز سے جاری احتجاجی مظاہروں اور مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد چار ہوگئی ہے جبکہ سینکڑوں دیگر زخمی ہیں۔

عرب ملک تیونس کے عوامی انقلاب کے زیرِ اثر منگل کے روز شروع ہونے والے مظاہروں کے اس سلسلہ کو مصر کی حالیہ تاریخ میں سب سے بڑا اور منظم احتجاج قرار دیا جارہا ہے۔ مظاہرین صدر حسنی مبارک کے استعفیٰ اور ملک میں معاشی اور سیاسی اصلاحات متعارف کرانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

مظاہروں کا اہتمام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مصری نوجوان بھی تیونس کے عوامی انقلاب کو جنم دینے والے عوامل، بشمول غربت اور حکومتی جبر، کا شکار ہیں اور ان کی جانب سے یہ مظاہرے نوجوانوں کے غصے کا اظہار کرنے کیلیے منعقد کیے جارہے ہیں۔

مصر میں مظاہروں پر عائد پابندی کے باوجود بدھ کے روز ملک کے کئی شہروں میں ہزاروں مظاہرین نے حکومت کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ اس موقع پر پولیس اور مظاہرین میں شدید جھڑپیں بھی ہوئیں۔ پولیس نے احتجاج کرنے والے نوجوانوں کو منتشر کرنے کیلیے ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس کے شیل فائر کیے اور لاٹھی چارج کیا۔

قبل ازیں کئی سو مشتعل مظاہرین کے ایک جلوس نے بدھ کی رات ساحلی شہر سوئز میں ایک سرکاری عمارت کو آگ لگادی تھی۔ مظاہرین نے صدر مبارک کی سیاسی جماعت "نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی" کے علاقائی دفتر پر بھی حملہ کیا اور توڑ پھوڑ کی۔ اس موقع پر پولیس سے ہونے والی جھڑپوں میں 55 مظاہرین زخمی ہوئے۔

قاہرہ کے کئی مقامات پر بھی نوجوانوں کے گروہوں اور سیکیورٹی حکام کے درمیان بدھ کو رات بھر آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری رہا۔ نوجوان مظاہرین نے سڑکوں پر ٹائر جلائے اور پولیس پر پتھرائو کیا جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلیے واٹر کینن اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔

حکام کا کہنا کہ ملک میں جاری احتجاج کی رواں لہر کے دوران اب تک 700 سے زائد افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔

دریں اثناء وہائٹ ہائوس کے ترجمان رابرٹ گبز کا کہنا ہےکہ مصر امریکہ کا ایک قریبی اتحادی ہے اور رہے گا۔ واشنگٹن میں ایک پریس بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے ترجمان کا کہنا تھا کہ مصر کی عوام کو بھی دنیا کے دیگر علاقوں کے لوگوں کی طرح بنیادی انسانی حقوق حاصل ہیں جنہیں تسلیم کیا جانا چاہیے۔