مصر میں انقلاب کے بعد ملک کا پہلا صدر کون ہوگا؟ نمایاں امیدواروں میں اخوان المسلمین کے محمد مرسی بھی شامل ہیں۔
مصر کی صدارت کی امیدوار کے لیے اخوان المسلمین کا پہلا انتخاب محمد مرسی نہیں تھے۔ لیکن جب اخوان کے اول امیدوار کو نا اہل قرار دے دیا گیا تو یہ رول ان کے حصے میں آ گیا۔ اور اب وہ بڑے جو ش و خروش سے اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔
وہ کسی بڑے ہجوم سے مخاطب ہوں، یا کسی کمرے میں بیٹھے ہوئے سیاستدانوں کے اجتماع سے، ایک مشاق سیاستدان کی طرح انہیں بات کرنے کا فن آتا ہے۔ محمد مرسی اخوان کی فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے سربراہ بھی ہیں۔
زیگ ازیج یونیورسٹی کے طالب علموں سے خطاب کرتے ہوئے، وہ ان پر زور دیتے ہیں کہ انہیں سیاسی عمل میں سرگرمی سے شرکت کرنی چاہیئے اور آزادی سے سوال پوچھنے چاہئیں۔
’’نئے صدر کے انتخاب کے بعد، اگر وہ منتخب ہو جاتے ہیں تو بھی وہ چاہیں گے کہ انقلاب کا عمل جاری رہے۔‘‘
محمد مرسی نے اپنی انجینیرنگ کی تعلیم امریکہ میں مکمل کی ہے۔ اپنے آبائی گاؤں ایدوا میں وہ اپنے حامیوں کو بتاتے ہیں کہ ان کا تعلق اسی زمین سے ہے۔
’’میں آپ ہی میں سے ہوں ۔ میں نے کسی مالدار گھرانےمیں آنکھ نہیں کھولی ۔ میرے والد جفا کش اور محنتی انسان تھے۔ وہ مجھے گدھے کی پشت پر بٹھا کر اسکول لے جاتے تھے۔‘‘
وہ جہاں کہیں بھی تقریر کرتے ہیں یہ بات واضح کرتے ہیں کہ اسلام کے اصولوں کے ذریعے، سیاسی، اقتصادی اور سماجی طور پر مصر کی کایا پلٹ جائے گی۔
ان لوگوں کو جنھوں نے پرانی حکومت کی سختیوں کے زمانے میں جب اخوان پر پابندی لگی ہوئی تھی اخوان کا ساتھ دیا تھا، یہ باتیں بہت اچھی لگتی ہیں۔ حنان ذکریا کہتی ہیں کہ ’’صدارت محمد مرسی کو ملنی چاہیئے۔ پرانے دور میں، مجھے ایسا لگتا تھا کہ میں جلا وطنی کی زندگی گذار رہی ہوں۔ ان کی صدارت میں، میں محسوس کروں گی کہ میں مصر میں رہ رہی ہوں۔‘‘
نئے مصر میں مذہب کا عمل دخل بہت زیادہ ہو گا۔ یہاں غیر ملکی چیزوں کو لوگ شک و شبہے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ محمد مرسی کہتےہیں کہ ’’مصریوں کی ابتدا یہاں سے، دریائے نیل کے ڈیلٹا سے، ہوئی تھی۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ ہم عربی میں بات کریں۔ اگر لوگ مجھے غیر ملکی زبان بولتے سنیں گے، تو ممکن ہے کہ وہ ناراض ہو جائیں۔ آپ تو یہ بات سمجھتی ہوں گی۔‘‘
مصر میں بڑھتے ہوئے اسلامی اثرات پر بعض مصریوں کو تشویش ہے ۔ ان میں ملک کی قبطی عیسائیوں کی اقلیت شامل ہے۔ تاہم محمد مرسی کی بیوی نیگلا علی کہتی ہیں کہ دونوں گروپ امن و آشتی سے رہ سکتے ہیں۔
’’مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان کوئی مسائل نہیں ہیں خاص طور سے وہ مسلمان جن کے دل اسلام کے سچے اصولوں کی روشنی سے منور ہیں۔‘‘
لیکن محمد مرسی کو جن عملی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا وہ مذہبی مسائل سے کہیں زیادہ مشکل ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان کا پیغام اور ان کا پس منظر بہت مضبوط ہے۔ وہ پارلیمینٹ کے سابق رکن ہیں جنہیں گذشتہ سال کی عوامی تحریک کےد وران گرفتار کیا گیا تھا۔ لیکن انہیں اخوا ن المسلمین کے اس وعدے پر عمل نہ کرنے کا بوجھ برداشت کرنا پڑے گا کہ وہ سیاست میں اپنا رول محدود رکھے گی۔
ایک ووٹر سید حسنی کہتے ہیں کہ ’’اخوان نے پہلے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ صدارت کے لیے اپنا امیدوار کھڑا نہیں کریں گے۔ اخوان کو چاہیئے کہ وہ اپنے وعدے پر قائم رہیں۔‘‘
پارلیمینٹ میں پہلے ہی محمد مرسی کی پارٹی کا غلبہ ہے اور اس وجہ سے بھی کچھ لوگ اخوان کے خلاف ہو گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اخوان المسلمین نے عام مصریوں کے زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے کچھ نہیں کیا ہے۔
ووٹر میگیدی کہتے ہیں کہ ’’ملک کی معیشت مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ وہ اپنے سستے کپڑوں اور ٹرانسپورٹیشن کی خراب حالت کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم مرسی اور ان جیسے دوسرے لوگوں کو منتخب کر لیں۔‘‘
مصر کی سب سے زیادہ منظم تحریک کے لیے جوابدہی کا دور شروع ہو گیا ہے۔ اب یہ مرسی کا کام ہے کہ وہ صحیح معنوں میں پہلے جمہوری صدارتی انتخاب میں مصر کے ماضی اور مستقبل کی خلیج کو پُر کریں۔
’’نئے صدر کے انتخاب کے بعد، اگر وہ منتخب ہو جاتے ہیں تو بھی وہ چاہیں گے کہ انقلاب کا عمل جاری رہے۔‘‘
محمد مرسی نے اپنی انجینیرنگ کی تعلیم امریکہ میں مکمل کی ہے۔ اپنے آبائی گاؤں ایدوا میں وہ اپنے حامیوں کو بتاتے ہیں کہ ان کا تعلق اسی زمین سے ہے۔
’’میں آپ ہی میں سے ہوں ۔ میں نے کسی مالدار گھرانےمیں آنکھ نہیں کھولی ۔ میرے والد جفا کش اور محنتی انسان تھے۔ وہ مجھے گدھے کی پشت پر بٹھا کر اسکول لے جاتے تھے۔‘‘