قاہرہ: ’یوم ِمسلم نوجوانان‘، احتجاج کے دوران چار ہلاکتیں

مظاہرین اور پولیس کے مابین یہ جھڑپیں قاہرہ کے ’متاریہ‘ کے مشرقی علاقے میں بھڑک اُٹھیں، جن سے قبل، اسلام نواز طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے راست اقدام کی اپیل کر رکھی تھی، تاکہ مصر میں فوج کی حمایت سے چلنے والی حکومت کو ہٹایا جاسکے

قاہرہ میں، جمعے کے روز، ایک مذہبی گروہ سے وابستہ مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں واقع ہوئیں، جِن کے نتیجے میں دو افراد ہلاک ہوئے؛ جس سے چند ہی گھنٹے قبل نامعلوم افراد کی فائرنگ سے مصر کے دو اعلیٰ اہل کار ہلاک ہوئے۔

مصر کے سلامتی پر مامور ذرائع نے بتایا ہے کہ مظاہرین اور پولیس کے مابین یہ جھڑپیں قاہرہ کے ’متاریہ‘ کے مشرقی علاقے میں بھڑک اُٹھیں، جن سے قبل، اسلام نواز طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے راست اقدام کی اپیل کر رکھی تھی، تاکہ مصر میں فوج کی حمایت سے چلنے والی حکومت کو ہٹایا جاسکے۔

کم از کم 100 افراد کو گرفتار کیا گیا۔


سخت گیر، ’سلفی محاذ‘ نے، جو مصر میں اسلامی قانون نافذ کرنے کی مہم چلا رہا ہے، جمعے کے دِن ’مسلمان نوجوانان کی سرکشی‘ کے نام سے ملک بھر میں مظاہروں کی کال دی ہوئی تھی۔

’اخوان المسلمون‘ نے عوامی احتجاج کی کال کی توثیق کی تھی۔

دو اعلیٰ فوجی اہل کاروں کی ہلاکت کے بارے میں زیادہ تفصیل دستیاب نہیں ہیں۔ وہ قاہرہ اور شہر کے شمالی علاقے میں ہونے والے دو مختلف واقعات کے دوران، گولیاں لگنے کے واقعے میں ہلاک ہوئے۔


جمعے کے روز، ہونے والے یہ احتجاجی مظاہرے لگاتار کئی ماہ کی کوششوں کے بعد منظر پر آئے، جس کا مقصد صدر عبدالفتاح السیسی کی حکومت کے خلاف مخالفین کے اتحاد کا مظاہرہ کرنا تھا۔

اس سے قبل موصول ہونے والی اطلاع کے مطابق، مصر میں حکام مذہبی گروپ کی طرف سے مظاہرے کے اعلان میں کسی بھی ممکنہ تشدد سے نمٹنے کے لیے تیاری کر رہے ہیں جو ان کے بقول فوج کی حمایت یافتہ حکومت کا تختہ الٹنا چاہتا ہے۔

قدامت پسند سلفی فرنٹ نے جمعہ کو ملک گیر مظاہروں کا اعلان کر رکھا ہے جسے وہ "مسلمان نوجوانوں کی تحریک" کا حصہ قرار دیتا ہے۔

ملک میں اسلامی قانون کے نفاذ کا مطالبہ کرنے والے اس گروپ نے اپنے حامیوں سے کہا ہے کہ وہ مظاہروں کے دوران ہاتھوں میں قرآن اٹھا کر رکھیں۔

حکام نے تمام اہم مقامات پر سکیورٹی کو بڑھاتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ اگر مظاہرین نے پرتشدد صورت اختیار کی تو اس کا سختی سے جواب دیا جائے گا۔

حالیہ مہینوں میں صدر عبدالفتاح السیسی کی حکومت کے خلاف ان مظاہروں کو سب سے اہم اور ٹھوس قرار دیا جا رہا ہے۔

السیسی فوج کے سابق سربراہ ہیں اور انھوں نے گزشتہ سال ملک کے پہلے جمہوری منتخب صدر محمد مرسی کو ہٹائے جانے کے عمل کی نگرانی کی تھی۔

مرسی کا تعلق اخوان المسلمین سے ہے جس نے جمعہ کو ہونے والے مظاہروں کی حمایت کا اعلان کر رکھا ہے۔

مرسی کی برطرفی کے بعد حکومت نے اخوان المسلمین کے ہزاروں ارکان اور حمایتیوں کو جیلوں میں ڈالا جب کہ مظاہروں میں ہونے والی جھڑپوں میں بھی سینکڑوں افراد مارے جا چکے ہیں۔