حسنی مبارک مظاہرین کے قتل سے متعلق تمام الزامات سے بری

جج نے صحافیوں پر زور دیا کہ وہ اس مقدمے سے متعلق تجزیات اور ردعمل اس وقت تک پیش نہ کریں جب تک وہ 1430 صفحات پر مبنی تفصیلی فیصلہ پڑھ نہ لیں۔

مصر کی ایک عدالت نے سابق صدر حسنی مبارک کو 2011ء کی عوامی تحریک میں مظاہرین کی ہلاکتوں میں ملوث ہونے کے الزامات سے بری کر دیا گیا ہے۔

ہفتہ کو قاہرہ میں ہونے والی سماعت کے بعد جج کا کہنا تھا کہ صدر کے خلاف ہر طرح کے الزام کو مسترد کیا جاتا ہے۔

کھچا کھچ بھرے کمرہ عدالت میں فیصلے کے بعد لوگوں نے تالیاں بجائیں۔

اپنی طویل تقریر میں جج نے صحافیوں پر زور دیا کہ وہ اس مقدمے سے متعلق تجزیات اور رد عمل اس وقت تک پیش نہ کریں جب تک وہ 1430 صفحات پر مبنی تفصیلی فیصلہ پڑھ نہ لیں۔

حسنی مبارک کے وزیر داخلہ اور دیگر چھ اعلیٰ سکیورٹی عہدیداروں کو بھی الزامات سے بری کر دیا گیا ہے۔ ان تمام پر الزام تھا کہ انھوں نے مظاہرین کو ہلاک کرنے کا حکم دیا۔

سابق صدر کو 2012ء میں اس مقدمے میں عمر قید سنائی گئی تھی لیکن ایک سال بعد ہی انھیں رہا کر کے ایک فوجی اسپتال میں نظر بند کر دیا گیا۔

حسنی مبارک کی برطرفی کے بعد مصر میں جمہوری انتخابات بھی ہوئے جب کہ فوج نے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کو برطرف کرنے میں مدد کی جو کہ اکثر مصریوں کے بقول ملکی آئین میں سخت اسلامی قوانین کو شامل کرنا چاہتے تھے۔

حسنی مبارک کے دور میں انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ عبدالفتاح السیسی اس وقت مصر کے صدر ہیں۔