مصر کے سابق وزیرِداخلہ کی عدالت میں پیشی

سابق وزیر داخلہ

مصر کے سابق وزیرِداخلہ اور چھ پولیس افسران کو جمعرات کو قاہرہ کی ایک عدالت کے روبرو پیش کیا گیا جہاں ان کے خلاف پولیس کو مظاہرین پر فائرنگ کرنے کا حکم دینے کے الزام کے تحت مقدمہ زیرِ سماعت ہے۔

حبیب العدلی اور چھ پولیس افسران پر الزام ہے کہ انہوں نے فروری میں چلنے والی 18 روزہ حکومت مخالف تحریک کے دوران مظاہرین پر فائرنگ کا حکم دیا تھا۔ تحریک کے نتیجے میں سابق صدر حسنی مبارک کے مصر پر 30 برس طویل اقتدار کا خاتمہ ہوگیا تھا۔

ایک مصری عدالت بدعنوانی کے الزامات ثابت ہوجانے کے بعد پہلے ہی العدلی کو 12 برس قید کی سزا سنا چکی ہے۔

اس سے قبل گزشتہ روز بھی سابق وزیرِ داخلہ کو حسنی مبارک کے ہمراہ قاہرہ کی یک عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں ان پر ایسے ہی الزامات کے تحت ایک دوسرا مقدمہ زیرِسماعت ہے۔

بدھ کو سابق صدر اور دیگر ملزمان کے خلاف مقدمہ کی سماعت کرنے والے جج نے عدالت کی کارروائی 15 اگست تک معطل کردی تھی۔ سماعت کے موقع پر 83 سالہ سابق صدر حسنی مبارک کو اسٹریچر پر کمرہ عدالت میں لایا گیا تھا۔

عدالتی کارروائی کے دوران مبارک نے خود پر عائد ان الزامات کی صحت سے انکار کیا کہ انہوں نے رواں برس فروری میں 850 سے زائد انقلابی مظاہرین کو قتل کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔

سابق صدر وہ پہلے عرب رہنما ہیں جنہیں شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ میں رواں برس چلنے والی مقبول عوامی احتجاجی تحریکوں کے نتیجے میں عدالت کے روبرو پیش ہوکر اپنے خلاف مقدمہ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

حسنی مبارک کمرہ عدالت میں

گزشتہ روز ہونے والی سماعت کے دوران حسنی مبارک کے دو بیٹے بھی ان کے ہمراہ عدالت میں ہیش ہوئے۔ ملزمان کو کارروائی کی سماعت کے لیے کمرہ عدالت میں بنائے گئے ایک بہت بڑے لوہے کے پنجرے نما کٹہرے میں کھڑا کیا گیا تھا۔ سابق صدر کے دونوں بیٹوں نے خود پر علیحدہ سے عائد کردہ بدعنوانی کے الزامات کی صحت سے انکار کیا۔

اگر حسنی مبارک، العدلی اور چھ پولیس افسران کے خلاف عدالت میں الزامات ثابت ہوگئے تو انہیں موت کی سزا بھی سنائی جاسکتی ہے۔ سابق صدر پر طاقت کے بے جا استعمال اور قومی دولت لوٹنے کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔

اِس اہم مقدمہ نے اْس وقت غیر متوقع صورتِ حال اختیار کرلی تھی جب سابق صدر کے وکلاء نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ مصر کی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ اور مصر کی موجودہ حکمران فوجی کونسل کے صدر اور 1600 دیگر افراد کو بیانِ حلفی کے لیے عدالت میں طلب کیاجائے۔

ملزمان کے وکلاء کا موقف ہے کہ مصر کے آرمی چیف اور موجودہ سربراہِ مملکت فیلڈ مارشل محمد حسین طنطاوی نے 28 جنوری کے بعد اس وقت عملاً ملک کا کنٹرول سنبھال لیا تھا جب مظاہروں سے نمٹنے کے لیے قاہرہ کی سڑکوں پر فوج تعینات کی گئی تھی۔