مصر: قاہرہ فسادات کی تحقیقات کا حکم، ہلاکتیں 25 ہوگئیں

مصر: قاہرہ فسادات کی تحقیقات کا حکم، ہلاکتیں 25 ہوگئیں

مصر پہ برسرِ اقتدار فوجی کونسل نے عبوری حکومت کو حکم دیاہے کہ وہ اقلیتی عیسائیوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کے مابین اتوار کو دارالحکومت قاہرہ میں ہونے والے تصادم کی تحقیقات کرے جس میں کم از کم 25 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

مصر کے سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق فوجی کونسل کی جانب سے یہ حکم نامہ صورتِ حال پر غور کے لیے پیر کو ہونے والے ہنگامی اجلاس کے بعد جاری کیا گیا ہے۔

سابق صدر حسنی مبارک کے خلاف رواں برس چلنے والی احتجاجی تحریک اور فروری میں ان کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد مصر میں ہونے والا یہ بد ترین تصادم تھا۔

صدر مبارک کے بعد اقتدار سنبھالنے والے فوجی جنرلوں نے اپنے اس عزم کا کئی بار اعادہ کیا ہے کہ وہ عام انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہوکرآنے والی سول قیادت کو اقتدار سونپ دیں گے۔

پیر کو صورتِ حال پر غور کے لیے فوج کی جانب سے مقرر کی جانے والی ملک کی عبوری کابینہ کا بھی ایک اجلاس منعقد ہوا۔ اس سے قبل اتوار کی شب ٹیلی ویژن پر نشر کیے گئے اپنے خطاب میں ملک کے وزیرِ اعظم ایصام الشریف نے کہا تھا کہ حالیہ پر تشدد واقعات کے نتیجے میں مصر جمہوری اصولوں پر کاربند ایک جدید ریاست بننے کی جانب پیش قدمی کے بجائے ماضی کی طرف پلٹ گیا ہے۔

انہوں نے جھڑپوں کی ذمہ داری غیر ملکی اور داخلی سازشیوں کے "خفیہ ہاتھوں" پر عائد کی لیکن ان کی واضح نشان دہی سے گریز کیا۔

حالیہ جھڑپیں اس وقت شروع ہوئی تھیں جب کاپٹک نسل سے تعلق رکھنے والے کئی ہزار اقلیتی عیسائی اور ان کے حامیوں نے ایک احتجاج کے دوران دارالحکومت قاہرہ میں واقع سرکاری ٹیلی ویژن اسٹیشن کی عمارت کی جانب بڑھنے کی کوشش کی تھی۔ مظاہرین رواں ماہ کے آغاز میں ملک کے جنوبی حصے میں ایک گرجا گھر کو نذرِ آتش کیے جانے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔

ریلی کے شرکاء کی پیش قدمی کے نتیجے میں سرکاری ٹیلی ویژن کی عمارت کی حفاظت پر مامور پولیس و فوجی اہلکاروں اور مظاہرین کے مابین جھڑپیں شروع ہوگئی تھیں اور بعد ازاں احتجاج کا سلسلہ شہر کے مرکزی التحریر اسکوائر تک پھیل گیا تھا۔

جھڑپوں کے دوران سیکیورٹی فورسز کی ایک بکتر بند گاڑی کے تیز رفتاری سے مظاہرین کی جانب بڑھنے کے نتیجے میں کئی افراد اس کے تلے کچلے گئےتھے۔ حکام نے تصدیق کی ہے کہ ہلاک ہونے والے 25 افراد میں سے بیشتر عیسائی مظاہرین ہیں۔

حکام کا موقف ہے کہ مظاہرین نے جھڑپوں کے دوران سیکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ بھی کی جس کے نتیجے میں دو پولیس اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔ پرتشدد جھڑپوں میں 300 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔

واضح رہے کہ عیسائی مصر کی آٹھ کروڑ کی لگ بھگ آبادی کا تقریباً 10 فی صد ہیں اور ان کی اکثریت کو شکایت ہے کہ مصر کی نئی قیادت اسلام پسندوں کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے جو عیسائیوں کے بقول ان کے خلاف ہونے والے حملوں کے ذمہ دار ہیں۔