دو ہفتوں بعد بھی لاپتا طیارے کا سراغ نہیں مل سکا

آسٹریلوی نائب وزیراعظم کا کہنا تھا کہ تلاش کی کارروائیاں اس وقت تک جاری رہیں گی جب کہ حکام اس بات کا حتمی فیصلہ نہ کرلیں کہ ان کوششوں کے کوئی نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔
ملائیشیا کے مسافر طیارے کو لاپتا ہوئے دو ہفتے ہوگئے ہیں لیکن اس کی تلاش کے لیے 26 ملکوں کی طرف سے کی جانے والی کوششیں تاحال کوئی رنگ نہیں لاسکی ہیں۔

آسٹریلیا نے جہاز کی تلاش کے لیے تیسرے روز بھی جنوبی بحر ہند میں اس مقام کی طرف اپنے طیارے روانہ کیے ہیں جہاں رواں ہفتے پانی پر تیرتے ہوئے ملبہ کو "ممکنہ طور پر لاپتا طیارے" کی باقیات تصور کیا جا رہا تھا۔

ایک روز قبل آسٹریلیا کے شہر پرتھ سے جنوب مغرب میں تقریباً 2500 کلومیٹر کے فاصلے پر تلاش کے لیے جانے والی بین الاقوامی ٹیمیں ناکام لوٹی تھیں۔ اس مقام پر آسٹریلوی سیٹیلائٹ سے "ممکنہ باقیات" کی نشاندہی ہوئی تھی۔

نائب وزیراعظم وارن ٹرس نے ہفتے کو تلاش کی سرگرمیوں میں مصروف امدادی ٹیموں کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ بہت عمدہ کام کررہے ہیں اور یہ اپنے کیریئر میں ایسے بے شمار مشن سرانجام دے چکے ہیں۔

آسٹریلوی عہدیدار کا صحافیوں سے کہنا تھا کہ یہ کارروائیاں اس وقت تک جاری رہیں گی جب کہ حکام اس بات کا حتمی فیصلہ نہ کرلیں کہ ان کوششوں کے کوئی نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔

اب تک کی تلاش میں اس علاقے میں لاپتا طیارے کے ملبے کا بھی کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔ آسٹریلیا نے خبردار کیا ہے کہ سیٹیلائیٹ سے حاصل ہونے والی تصاویر میں نظر آنے والے اشیاء کی بوئنگ 777 سے شاید کوئی تعلق نہ ہو۔

ملائیشیا کی ایئرلائن کا ایک بوئنگ ہوائی جہاز عملے اور مسافروں سمیت 239 افراد کو کوالالمپور سے بیجنگ لے جاتے ہوئے آٹھ مارچ کو لاپتا ہوگیا تھا۔

جمعہ کو ملائیشیا کے وزیردفاع حشام الدین حسین نے امریکی محکمہ دفاع سے زیرآب نگرانی کرنے والے آلات فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔

پینٹاگون کے ایک ترجمان نے یہ تو نہیں بتایا کہ امریکہ کس طرح کے آلات فراہم کرے گا لیکن ان کے بقول وزیردفاع چک ہیگل اس درخواست اور اس امر پر غور کر رہے ہیں کہ آیا یہ لاپتا جہاز کی تلاش میں کارگر ثابت ہوگی یا نہیں۔

آسٹریلیا کے وزیراعظم ٹونی ایبٹ نے جمعہ کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ ان کا ملک "اپنے تمام دستیاب وسائل گمشدہ جہاز کی تلاش کی کوششوں میں لگا رہا ہے۔"

تحقیقات کرنے والے حکام طیارے کے معاملے میں ناگہانی فنی خرانی، دہشت گردی یا پائلٹ کی خودکشی سمیت کسی بھی امکان کو رد نہیں کر رہے اور ان کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ جہاز کو کسی نے اس کے مقررہ راستے سے دانستہ طور پر کہیں منتقل کیا ہو۔