الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز کے پارٹی عہدہ رکھنے کے خلاف درخواست مسترد کرتے ہوئے انہیں عہدہ رکھنے کی اجازت دے دی ہے۔
چیف الیکشن کمشنر سردار محمّد رضا کی سربراہی میں 3 رکنی کمیشن نے 16 ستمبر کو محفوظ کیا گیا فیصلہ منگل کو سنایا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ نائب صدر کا عہدہ غیر فعال اور اختیارات کے بغیر ہے۔ اگر پارٹی صدر کا عہدہ خالی ہو تو مریم نواز نا اہلی کے خاتمے تک صدر کا عہدہ نہیں سنبھال سکتیں۔ لہٰذا، انہیں پارٹی کی نائب صدارت سے نہیں ہٹایا جا سکتا۔
الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ مریم نواز کو اگر پارٹی کا کوئی اور عہدہ رکھنا ہے تو اس کے لیے انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ سے اپنے خلاف فیصلوں پر کلین چٹ لینا ہو گی۔
الیکشن کمیشن نے مریم نواز کے کیس کا تحریری فیصلہ بھی جاری کر دیا ہے جسے چیف الیکشن کمشنر نے تحریر کیا ہے۔
فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ (ن) لیگ کی نائب صدر کا عہدہ غیر متحرک ہے جس پر آرٹیکل 63-62 اور 63 اے کا اطلاق نہیں ہوتا۔
الیکشن کمیشن نے (ن) لیگ کو حکم دیا ہے کہ مریم نواز کو ان کی سزا برقرار رہنے تک پارٹی صدارت، سیکریٹری جنرل یا دیگر اہم عہدے نہ دیے جائیں۔
الیکشن کمیشن نے حکم دیا کہ مریم نواز خود بھی کوئی اہم عہدہ قبول نہ کریں۔
خیال رہے کہ مریم نواز کو پارٹی کی نائب صدارت سے ہٹانے کے لیے درخواست پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی رکن مالکہ بخاری، فرخ حبیب اور کنول شوزب نے دائر کی تھی جس پر الیکشن کمیشن نے گزشتہ روز فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کا ردِّ عمل
الیکشن کمیشن کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز کے وکیل بیرسٹر ظفراللہ نے کہا کہ مریم نواز کو پارٹی نے اپنے دستور کے مطابق نائب صدر منتخب کیا تھا اور مریم نواز پارٹی آئین کے تحت نائب صدر رہیں گی۔
انہوں نے کہا کہ سزا یافتہ شخص پر پارٹی عہدہ نہ رکھنے کی پابندی آمرانہ دور میں لگائی گئی تھی جب کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اس پابندی کو ختم کر دیا گیا تھا۔
مریم نواز کے خلاف درخواست کب دائر ہوئی؟
پاکستان تحریکِ انصاف کے چار اراکین قومی اسمبلی نے مریم نواز کے بطور نائب صدر برائے مسلم لیگ (ن) تقرری کے خلاف گزشتہ سال الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی تھی۔
درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف کے کیس میں سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 اور 63 کا استعمال کرتے ہوئے انہیں پارٹی عہدے کے لیے نا اہل قرار دیا تھا۔ یہی قانون مریم نواز پر بھی لاگو ہونا چاہیے۔
پی ٹی آئی کی درخواست پر مسلم لیگ (ن) نے مؤقف اپنایا تھا کہ آئین اور الیکشن ایکٹ کے تحت سزا یافتہ شخص پر پارٹی کی نائب صدارت رکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ لہٰذا، اس درخواست کو مسترد کیا جائے۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے 3 مئی کو لندن سے ایک اعلامیہ جاری کیا تھا جس کے مطابق نائب صدور کی 16 رکنی فہرست میں مریم نواز کے علاوہ حمزہ شہباز اور خواجہ سعد رفیق کے نام بھی شامل تھے۔ جب کہ سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کو انٹرنیشنل افیئرز کا صدر اور نزہت صادق کو خواتین ونگ کا صدر مقرر کیا گیا تھا۔
مریم نواز کی سزا
جولائی 2018 میں احتساب عدالت نے ایوِن فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز کو والد کے اثاثے چھپانے کی سازش میں مرکزی کردار ادا کرنے اور جعلی ٹرسٹ ڈیڈ جمع کرانے پر 7 سال اور نیب کے ساتھ تعاون نہ کرنے پر ایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔
سزا کے بعد مریم نواز انتخابات میں شرکت کے لیے بھی نا اہل ہو گئی تھیں۔ لیکن جنوری میں عدالتِ عظمیٰ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے مریم نواز اور ان کے والد کو سنائی گئی قید کی سزا معطل کر دی تھی۔
ڈیل، نو ڈیل
مریم نواز کی نائب صدارت کے خلاف درخواست مسترد کیے جانے کا فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی العزیزیہ کیس میں اپیل کی سماعت بدھ کو ہونے جا رہی ہے۔
گزشتہ روز وزیرِ اعظم عمران خان سے بابر اعوان نے ملاقات کی، جس کے بعد یہ بیان سامنے آیا کہ وزیرِ اعظم کا کہنا ہے کہ کسی کو این آر او نہیں دیا جائے گا۔
دوسری جانب نواز شریف سے بھی شہباز شریف، خواجہ آصف اور احسن اقبال نے گزشتہ روز ملاقات کی۔
نواز شریف سے عام دنوں میں ملاقات کی اجازت نہیں ہوتی۔ لیکن کل ان تنیوں اہم شخصیات کو نواز شریف سے ملنے دیا گیا۔ جس کے باعث ڈیل کی باتیں سامنے آ رہی ہیں۔ لیکن دونوں فریقین کسی قسم کی ڈیل سے انکار کر چکے ہیں۔
اس صورتِ حال میں جمعیت علمائے اسلامی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن بھی دھرنے کی تیاری کیے ہوئے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اگرچہ اس دھرنے میں شرکت سے متعلق کوئی اعلان نہیں کیا لیکن نواز شریف کے حوالے سے اطلاعات آ رہی ہیں کہ انہوں نے پارٹی قیادت کو اس دھرنے میں شرکت کا کہا ہے۔