پاکستان کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ کرونا کی وبا سے ملک کو تین ہزار ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر بھی آٹھ سے نو ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔
جمعرات کو اسلام آباد میں رواں مالی سال کی اقتصادی سروے رپورٹ پیش کرتے ہوئے عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت کو اقتصادی بحران ورثے میں ملا۔ ہمارے اخراجات آمدنی سے کافی زیادہ تھے، برآمدات میں اضافہ صفر تھا جب کہ ڈالر کو سستا رکھنے کی وجہ سے درآمدات میں بھی اضافہ ہوا۔
اُن کا کہنا تھا کہ زرمبادلہ کے ذخائر گر کر نصف رہ گئے۔ ہم بیرونی محاذ پر دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکے تھے۔
اُن کا کہنا تھا کہ کرونا کی وجہ سے ٹیکس وصولیاں اور برآمدات بھی متاثر ہوئیں۔
کرونا کی وجہ سے معیشت کو پہنچنے والے نقصانات
عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ کرونا وائرس سے عالمی معیشت پر برے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں امید تھی کے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ٹیکس وصولی اگر اسی رفتار سے جاری رہتی تو 4700 ارب حاصل ہو سکتے تھے۔
لیکن اب ٹیکس کی مد میں بمشکل 3900 ارب جمع ہوئے ہیں۔ اس طرح ایف بی آر کو ٹیکس محصولات کی مد میں 850 سے 900 ارب کا نقصان ہوا۔
اُنہوں نے کہا کہ کرونا سے نمٹنے کے لیے حکومت نے مختلف اقدامات کیے۔ حکومت نے 1240 ارب کا ریلیف پیکج دیا۔ زرعی شعبے کو ریلیف کے لیے 50 ارب روپے مختص کیے گئے۔ یوٹیلٹی اسٹورز پر اربوں روپے کی سبسڈی دی اور آٹا، چینی سمیت اشیائے ضروریہ سستی کیں۔ چھوٹا کاروبار کرنے والوں کے تین ماہ کے بجلی کے بل معاف کیے۔
عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ کرونا کی وجہ سے مستحکم ہوتی ہوئی معیشت کو بھی دھچکا لگا۔ کرونا سے پہلے پاکستانی معیشت 3 فی صد کی شرح سے بڑھنے کی توقع تھی لیکن رواں مالی سال معاشی شرح نمو منفی 0.4 فی صد رہی۔
حفیظ شیخ نے آئندہ آنے والے بجٹ میں مزید ٹیکسز نہ لگانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں عوام اور کاروبار پر مزید بوجھ نہیں ڈال سکتے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ آئندہ بجٹ میں لوگوں کو سہولتیں دیں اور نئے ٹیکس نہ لگائے جائیں۔ پہلے سے عائد ٹیکسوں میں کمی کی جائے گی۔
'اخراجات اور آمدن میں توازن لائے'
مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ وزیراعظم کی رہنمائی میں اخراجات میں کمی کی پالیسی میں کامیابی ہوئی۔ پہلی دفعہ متوازن پالیسی سے اخراجات اور آمدن میں توازن لائے۔
انہوں نے کہ اس سال تجارتی خسارے میں 73 فی صد کمی کی گئی۔ 20 ارب ڈالر کے خسارے کو کم کر کے تین ارب ڈالر تک لے آئے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ پہلی بار پورے سال میں اسٹیٹ بینک سے کوئی قرضہ نہیں لیا گیا۔ کسی وزارت کو ضمنی گرانٹ کی مد میں کوئی فنڈ جاری نہیں ہوا۔ موجودہ حکومت نے ماضی کے قرضے واپس کرنے کے لیے قرضے لیے۔
اُنہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ چھ ارب ڈالر کا پروگرام کیا۔ موثر حکمت عملی سے پانچ ہزار ارب روپے کے قرضے واپس کیے گئے۔
عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ کم آمدنی والے افراد کے لیے ہاؤسنگ اسکیم کے لیے 30 ارب روپے رکھے گئے۔ ہاؤسنگ اسکیم میں ٹیکسوں پر مراعات دی گئی ہیں۔ کم آمدنی والے افراد کو ٹیکسوں میں 90 فی صد تک چھوٹ دی گئی ہے جبکہ وزیراعظم نے وفاقی،صوبائی حکومتوں کو لینڈ بینک بنانے کی ہدایت کی ہے۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر آٹھ سے نو ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ ہمارے اخراجات اخراجات آمدنی سے کافی زیادہ تھے۔ موجودہ حکومت نے صنعتی شعبے کو بھی بحال کیا۔
عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ سماجی شعبے کی ترقی کے لیے فنڈز فراہم کیے جائیں گے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے شعبے کرونا کی وجہ سے متاثر ہو رہے ہیں۔
اُنہوں نے کہا سماجی شعبوں کو ٹیکس میں چھوٹ دی جائے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
مختلف شعبوں میں ترقی کا امکان
مشیر خزانہ نے کہا کہ رواں سال زرعی شعبے کی ترقی کی شرح 2.9 فی صد رہنے کا امکان ہے۔ صنعتی شعبے کی ترقی کی شرح منفی 2.68 فی صد رہنے کا امکان ہے۔
اُنہوں نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے چھوٹے کاروبار کی ترقی کی شرح 1.52 فی صد رہے گی۔ بڑے صنعتی شعبے کی ترقی منفی 7.8 فی صد رہنے کا امکان ہے۔ سروسز سیکٹر کی ترقی کی شرح 0.59 فی صد رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ فصلوں کی پیداوار میں 2.98 فی صد اضافہ دیکھا گیا۔ اہم فصلوں میں 2.90 فی صد اضافہ ہوا۔ سال کی چوتھی سہ ماہی میں کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے منفی اثرات پڑے۔ کھاد کی پیداوار میں 5.8 فی صد اضافہ ہوا۔
جنگلات کے شعبے میں 2.29 فی صد ترقی ہوئی۔
پاکستان کی حکومت آئندہ مالی سال کا بجٹ جمعہ 12 جون کو پیش کرے گی۔