جامعہ پنجاب نے حسنین جمیل کو 'ناپسندیدہ' طالب علم قرار دے دیا

حسنین جمیل (فائل فوٹو)

لاہور میں رواں ماہ ہونے والے فیض میلے کے دوران 'سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے' کی وائرل ہونے والی ویڈیو میں 'دربوکہ' بجانے والے حسنین جمیل کو جامعہ پنجاب کی انتظامیہ نے 'پرسونا نان گراٹا' (ناپسندیدہ شخص) قرار دے دیا ہے۔

حسنین جمیل جامعہ پنجاب کے شعبہ پاکستان اسٹڈیز میں ایم فل کے طالب علم ہیں۔ وہ 29 نومبر کو لاہور کے مال روڈ پر ہونے والے طلبہ یکجہتی مارچ کے منتظمین میں بھی شامل ہیں۔

جامعہ پنجاب کے رجسٹرار ڈاکٹر محمد خالد خان کی طرف سے جاری کردہ نوٹی فکیشن کے مطابق، حسنین جمیل کے جامعہ میں داخلے پر پابندی ہو گی۔ اور ان کے ساتھ تعاون کرنے والے شخص کے خلاف بھی تادیبی کارروائی کی جائے گی۔

نوٹی فکیشن میں حسنین جمیل کو 'پرسونا نان گراٹا' قرار دینے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ رواں سال 20 مارچ کو یونیورسٹی میں ہونے والی ایک ریلی کے دوران حسنین جمیل کا ایک دوسری طلبہ تنظیم کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا۔

نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ حسنین جمیل کو مذکورہ واقعے سے متعلق اپنا موقف دینے کی پیش کش کی گئی۔ لیکن وہ وضاحت کے لیے پیش نہیں ہوئے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق، حسنین جمیل کے خلاف پرتشدد واقعات میں ملوث ہونے کے ثبوت ملے ہیں۔

دوسری طرف فیض میلے میں دربوکہ بجانے والے حسنین جمیل کا کہنا ہے کہ 29 نومبر کو لاہور میں ہونے والے طلبہ یکجہتی مارچ کے خوف سے انتظامیہ نے یہ اقدام کیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے حسنین جمیل کا کہنا تھا میرا قصور یہ ہے کہ میں طلبہ مارچ کے لیے متحرک تھا اور یونیورسٹی میں اس حوالے سے پوسٹرز لگا رہا تھا۔

حسنین کے مطابق، یونیورسٹی انتظامیہ کو یہ خوف تھا کہ اگر وہ یونیورسٹی آتے رہے تو طلبہ متحرک ہوتے رہیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ چند دن پہلے ایف سی کالج کے پروفیسر عمار علی جان کو بھی جامعہ پنجاب میں ایک تقریب میں مدعو کیا گیا تھا، جنہیں انتظامیہ نے داخل نہیں ہونے دیا۔

حسنین جمیل فیض میلے میں دربوکہ بجاتے ہوئے۔ (فائل فوٹو)

حسنین کا مزید کہنا ہے کہ یونیورسٹی کی انتظامیہ اور ریاست طلبہ یکجہتی مارچ کو روکنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہیں اور طلبہ یکجہتی مارچ کے منتظمین میں شامل دیگر طلبہ کو بھی ہراساں کیا جا رہا ہے۔

جامعہ پنجاب کے نوٹی فکیشن میں ان کے بیان حلفی کی خلاف ورزی سے متعلق سوال پر حسنین جمیل کا کہنا تھا کہ وہ اس بیان حلفی کو سرے سے مانتے ہی نہیں۔ یہ آئین کے آرٹیکل 17 کی خلاف ورزی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم 18 سال کی عمر میں ووٹ ڈال سکتے ہیں تو 20، 21 سال کی عمر میں سیاسی سرگرمیوں میں حصّہ کیوں نہیں لے سکتے۔

رواں سال مارچ میں ہونے والی ریلی سے متعلق حسنین کا کہنا ہے کہ انہوں نے انتظامیہ کے کہنے پر اپنا بیان تحریری طور پر بھی جمع کرایا۔ پھر انتظامیہ نے ایک ڈسپلنری کمیٹی بٹھائی اور میں اس میں گیا۔ لیکن انتظامیہ نے کہا کہ ابھی ڈسپلنری کمیٹی کے اراکین پورے نہیں ہیں۔ ہم آپ کو دوبارہ پیش ہونے کا نوٹس بھیج دیں گے۔

انسانی حقوق کی تنظیم 'ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان' کا ایک ٹوئٹ میں کہنا ہے کہ انہیں اطلاعات مل رہی ہیں کہ 29 نومبر کو ہونے والے طلبہ یکجہتی مارچ کے منتظمین کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔

حسنین کا کہنا ہے کہ انہیں اس کے بعد کوئی نوٹس نہیں ملا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ رواں سال مارچ میں ہونے والے واقعے کا فیصلہ 29 نومبر کو ہونے والے طلبہ یکجہتی مارچ سے پہلے آ رہا ہے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ میں اس مارچ سے پہلے یونیورسٹی میں طلبہ کو مارچ میں شرکت کے لیے متحرک نہ کر سکوں۔

جامعہ پنجاب کے ترجمان خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ حسنین جمیل شعبہ پاکستان اسٹڈیز کے اب طالب علم نہیں ہیں اور وہ 2015 سے 2017 کے سیشن کے دوران ایم فل کے طالب علم تھے۔ خرم کے بقول، ان کی ڈگری کینسل کرنے سے متعلق خبریں بھی بے بنیاد ہیں۔

حسنین جمیل کا کہنا ہے کہ ان کی ایم فل کی کلاسز ختم ہو چکی ہیں۔ لیکن ابھی تک انہوں نے اپنا فائنل تھیسز جمع نہیں کرایا۔

Your browser doesn’t support HTML5

یکجہتی مارچ کے مخالف طلبہ کی رائے

خیال رہے کہ رواں ماہ لاہور میں منعقد ہونے والے فیض میلے کے موقع پر ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی، جس میں کچھ نوجوان بسمل عظیم آبادی کی غزل 'سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے' گا رہے تھے اور ایک نوجوان حسنین جمیل اس ویڈیو میں دربوکہ بجاتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔

علاوہ ازیں، رواں ماہ 29 نومبر کو لاہور میں طلبہ یکجہتی مارچ منعقد ہونے والا ہے، جس میں طلبہ، تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں پر عائد پابندی کے خلاف مارچ کریں گے اور حسنین جمیل اس مارچ کے منتظمین میں شامل ہیں۔