’من حیث القوم، ہمارا رویہ یہ ہو چکا ہے کہ جب کوئی حادثہ ہوجاتا ہے تو ہم اس کے بعد سوچتے ہیں۔ لیکن، اس کسی قدرتی آفت سے نبردآزما ہونے کی بروقت کوئی تدبیر کرنا ہمیشہ ہماری دسترس سے باہر معلوم ہوتی ہے‘: تجزیہ کار
کراچی —
کچھ لوگوں کو ’کھڑی نیم کے نیچے ہوں تو ہیکلی‘ جیسے ’مائی بھاگی‘ کےگانے یا ’کارواں‘ جیسے ڈرامے کے حوالے سے صوبہٴسندھ کا صحرائی علاقہ، تھر ذہن میں آتا ہے۔ لیکن، اس کے برعکس، آج کل یہ علاقہ خشک سالی اور قحط کی بنا پر خبروں میں ہے۔
زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ اربابِ اختیار کو تھر کی یاد تب ہی آئی جب وہاں بے شمار مور، مویشی اور انسان بھوک، پیاس اور بیماری کی وجہ سے تکالیف جھیل رہے ہیں۔
لوگوں پوچھتے ہیں کہ کیا تھر صحرائی علاقہ نہیں ہے؟ کیا کم بارشیں ہونے کی صورت میں وہاں خشک سالی کا خدشہ نہیں رہتا؟ کیا قحط کی وجہ سے اموات واقع نہیں ہوتیں؟ اور اگر یہ سب کچھ سچ ہے تو پھر احتیاطی تدابیر کیوں نہیں کی گئیں؟
سینئر تجزیہ کار، مظہر عباس نے بتایا کہ خوراک کی قلت تھر میں ہر سال ہی ہوتی ہے۔ لیکن، کبھی کبھار یہ صورتحال بہت ہی زیادہ سنگین ہوجاتی ہے اور اسی وجہ سے کم بارشیں ہونے کی صورت میں کئی مرتبہ تھر کو پہلے ہی قحط زدہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ لیکن، اِس بار، ایسا نہیں ہوا۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ من حیث القوم، ہمارا رویہ یہ ہو چکا ہے کہ جب کوئی حادثہ ہوجاتا ہے تو ہم اس کے بعد سوچتے ہیں۔ لیکن، اس کسی قدرتی آفت سے نبردآزما ہونے کی بروقت کوئی تدبیر کرنا ہمیشہ ہماری دسترس سے باہر معلوم ہوتی ہے۔
تھر میں بچوں کی اموات کی خبریں آج ہر اخبار اور نیوز چینل کی زینت بنی ہوئی ہے؛ اور اس پر اتنا شور مچا ہے کہ اب ہرطرف سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ امدادی قافلے تھر کے علاقے مٹھی کے لئے روانہ ہو چکے ہیں یا پہنچنے والے ہیں۔
اس پر بات کرتے ہوئے، مٹھی سے ٹی وی چینلز کے لئے رپورٹ کرنے والے تھر کے مقامی ایک صحافی، ممتاز نوڈیو نے بتایا کہ تمام تر امدادی کاروایوں کا مرکز مٹھی کا اسپتال بنا ہوا ہے، جہاں بچوں کی اموات کی خبروں نے جنم لیا۔
لیکن، تھر تو بہت وسیع علاقہ ہے جس کے دوردراز علاقوں میں کوئی امدادی کاروائی نظر نہیں آتی۔ اور اسی وجہ سے، قحط سے متاثرہ لوگ میرپورخاص، سانگڑ، بدین اور دوسرے علاقوں میں نقل مقانی کرنے پر مجبور ہیں۔
تھر کے ایک دور دراز گاوں، روہی راڑو سے وہاں کی ایک سماجی شخصیت قاضی سموں نے بتایا ہے کہ ان کے علاقے میں کوئی امدادی کاروائی نہیں کی جارہی۔ اُن کا کہنا تھا کہ شہر کے لوگ اور حکومت ان کے حال سے بے خبر ہیں، کیونکہ جس پر پڑتی ہے وہی جانتا ہے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ جس سال بارشیں ہوتی ہیں، اُسی سال میٹھا پانی دستیاب ہوتا ہے، ورنہ کنویں کا کڑوا اور ناقابلِ استعمال پانی پینا پڑتا ہے۔ ساتھ ہی، غذا، پانی اور دوا کی عدم موجودگی کے باعث حاملہ مائیں بیمار ہوجاتی ہیں اور ان کے بچے بیمار پیدا ہوتے ہیں، مویشی مرجاتے ہیں، بچوں کو نہ ماں کا دودھ ملتا ہے اور نہ مویشیوں کا؛ اور یوں، ان علاقوں میں بس بے بسی اور موت ہی نظر آتی ہے۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر وہ دل پر پتھر رکھ کر یہ مان بھی لیں کہ مرنے والے مرگئے تو کم از کم ان کی موت کی وجہ معلوم کرکے جو زندہ ہیں، اُن کو تو بچایا جا سکتا ہے۔
کراچی کے آغا خان یونیورسٹی اسپتال میں بچوں کے شعبے کے سربراہ رہنے والے، پروفیسر ڈاکٹر غفار بلو ’ہینڈز‘ نامی فلاحی ادارے کے سربراہ ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ یہ ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ وہ بچے جن میں غذائی قلت ہوتی ہے وہ مختلف بیماریوں کا مقابلہ نہیں کرپاتے اور ہلاک ہوجاتے ہیں۔
پروفیسر بلو نے مزید کہا کہ چاہے حکومت اب جاگی ہو اور میڈیا نے بھی اب شور مچانا شروع کیا ہو، مختلف غیر سرکاری تنظیمیں، جن میں ’ہینڈز‘ بھی شامل ہے، ’یونیسیف‘ کے تعاون سے پچھلے ایک مہینے سے تھر میں کام کر رہی ہے اور خواتین، بچوں، حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی خواتین میں غذا کی کمی ختم کرنے کی یہ کوشش اگلے چھہ ماہ تک جاری رہے گی۔
تنقید کا جواب دیتے ہوئے، سندھ کی حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے تھر سے رکن سندھ اسمبلی، ڈاکٹر مہیش کمار ملانی نے کہا ہے کہ تھرپارکر ایک دور دراز اور پسماندہ علاقہ ہے، جہاں زیادہ تر لوگ گاوٴں میں رہتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں غربت بہت ہے اور پانی، بجلی، تعلیم سمیت صحت کی سہولیات بہت کم ہیں۔
ڈاکٹر ملانی نے کہا کہ اس علاقے میں ویسے ہی غذائی قلت رہتی ہے اور حاملہ خواتین گھروں میں بچوں کو جنم دیتی ہیں۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ مٹھی اسپتال میں ہلاک ہونے والے بچے بہت سنگین حالت میں اسپتال لائے گئے، اور یوں، جان بچانا مشکل تر معاملہ بنا۔ لیکن، بقول اُن کے، اب حکومت نے دوسرے علاقوں سے ڈاکٹر اور دوائیاں منگوالی ہیں اور تھر کے عوام میں گندم بھی مفت تقسیم کی جا رہی ہے۔
حکومتِ سندھ کے امدادی اقدامات کے ساتھ ساتھ فوج، رینجرز، سیاسی جماعتوں اور فلاحی اداروں نے بھی تھر کے لوگوں کی امداد شروع کردی ہے؛ اور سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف بھی تھر کا دورہ کرنے والے ہیں۔
زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ اربابِ اختیار کو تھر کی یاد تب ہی آئی جب وہاں بے شمار مور، مویشی اور انسان بھوک، پیاس اور بیماری کی وجہ سے تکالیف جھیل رہے ہیں۔
لوگوں پوچھتے ہیں کہ کیا تھر صحرائی علاقہ نہیں ہے؟ کیا کم بارشیں ہونے کی صورت میں وہاں خشک سالی کا خدشہ نہیں رہتا؟ کیا قحط کی وجہ سے اموات واقع نہیں ہوتیں؟ اور اگر یہ سب کچھ سچ ہے تو پھر احتیاطی تدابیر کیوں نہیں کی گئیں؟
سینئر تجزیہ کار، مظہر عباس نے بتایا کہ خوراک کی قلت تھر میں ہر سال ہی ہوتی ہے۔ لیکن، کبھی کبھار یہ صورتحال بہت ہی زیادہ سنگین ہوجاتی ہے اور اسی وجہ سے کم بارشیں ہونے کی صورت میں کئی مرتبہ تھر کو پہلے ہی قحط زدہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ لیکن، اِس بار، ایسا نہیں ہوا۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ من حیث القوم، ہمارا رویہ یہ ہو چکا ہے کہ جب کوئی حادثہ ہوجاتا ہے تو ہم اس کے بعد سوچتے ہیں۔ لیکن، اس کسی قدرتی آفت سے نبردآزما ہونے کی بروقت کوئی تدبیر کرنا ہمیشہ ہماری دسترس سے باہر معلوم ہوتی ہے۔
تھر میں بچوں کی اموات کی خبریں آج ہر اخبار اور نیوز چینل کی زینت بنی ہوئی ہے؛ اور اس پر اتنا شور مچا ہے کہ اب ہرطرف سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ امدادی قافلے تھر کے علاقے مٹھی کے لئے روانہ ہو چکے ہیں یا پہنچنے والے ہیں۔
اس پر بات کرتے ہوئے، مٹھی سے ٹی وی چینلز کے لئے رپورٹ کرنے والے تھر کے مقامی ایک صحافی، ممتاز نوڈیو نے بتایا کہ تمام تر امدادی کاروایوں کا مرکز مٹھی کا اسپتال بنا ہوا ہے، جہاں بچوں کی اموات کی خبروں نے جنم لیا۔
لیکن، تھر تو بہت وسیع علاقہ ہے جس کے دوردراز علاقوں میں کوئی امدادی کاروائی نظر نہیں آتی۔ اور اسی وجہ سے، قحط سے متاثرہ لوگ میرپورخاص، سانگڑ، بدین اور دوسرے علاقوں میں نقل مقانی کرنے پر مجبور ہیں۔
تھر کے ایک دور دراز گاوں، روہی راڑو سے وہاں کی ایک سماجی شخصیت قاضی سموں نے بتایا ہے کہ ان کے علاقے میں کوئی امدادی کاروائی نہیں کی جارہی۔ اُن کا کہنا تھا کہ شہر کے لوگ اور حکومت ان کے حال سے بے خبر ہیں، کیونکہ جس پر پڑتی ہے وہی جانتا ہے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ جس سال بارشیں ہوتی ہیں، اُسی سال میٹھا پانی دستیاب ہوتا ہے، ورنہ کنویں کا کڑوا اور ناقابلِ استعمال پانی پینا پڑتا ہے۔ ساتھ ہی، غذا، پانی اور دوا کی عدم موجودگی کے باعث حاملہ مائیں بیمار ہوجاتی ہیں اور ان کے بچے بیمار پیدا ہوتے ہیں، مویشی مرجاتے ہیں، بچوں کو نہ ماں کا دودھ ملتا ہے اور نہ مویشیوں کا؛ اور یوں، ان علاقوں میں بس بے بسی اور موت ہی نظر آتی ہے۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر وہ دل پر پتھر رکھ کر یہ مان بھی لیں کہ مرنے والے مرگئے تو کم از کم ان کی موت کی وجہ معلوم کرکے جو زندہ ہیں، اُن کو تو بچایا جا سکتا ہے۔
کراچی کے آغا خان یونیورسٹی اسپتال میں بچوں کے شعبے کے سربراہ رہنے والے، پروفیسر ڈاکٹر غفار بلو ’ہینڈز‘ نامی فلاحی ادارے کے سربراہ ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ یہ ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ وہ بچے جن میں غذائی قلت ہوتی ہے وہ مختلف بیماریوں کا مقابلہ نہیں کرپاتے اور ہلاک ہوجاتے ہیں۔
پروفیسر بلو نے مزید کہا کہ چاہے حکومت اب جاگی ہو اور میڈیا نے بھی اب شور مچانا شروع کیا ہو، مختلف غیر سرکاری تنظیمیں، جن میں ’ہینڈز‘ بھی شامل ہے، ’یونیسیف‘ کے تعاون سے پچھلے ایک مہینے سے تھر میں کام کر رہی ہے اور خواتین، بچوں، حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی خواتین میں غذا کی کمی ختم کرنے کی یہ کوشش اگلے چھہ ماہ تک جاری رہے گی۔
تنقید کا جواب دیتے ہوئے، سندھ کی حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے تھر سے رکن سندھ اسمبلی، ڈاکٹر مہیش کمار ملانی نے کہا ہے کہ تھرپارکر ایک دور دراز اور پسماندہ علاقہ ہے، جہاں زیادہ تر لوگ گاوٴں میں رہتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں غربت بہت ہے اور پانی، بجلی، تعلیم سمیت صحت کی سہولیات بہت کم ہیں۔
ڈاکٹر ملانی نے کہا کہ اس علاقے میں ویسے ہی غذائی قلت رہتی ہے اور حاملہ خواتین گھروں میں بچوں کو جنم دیتی ہیں۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ مٹھی اسپتال میں ہلاک ہونے والے بچے بہت سنگین حالت میں اسپتال لائے گئے، اور یوں، جان بچانا مشکل تر معاملہ بنا۔ لیکن، بقول اُن کے، اب حکومت نے دوسرے علاقوں سے ڈاکٹر اور دوائیاں منگوالی ہیں اور تھر کے عوام میں گندم بھی مفت تقسیم کی جا رہی ہے۔
حکومتِ سندھ کے امدادی اقدامات کے ساتھ ساتھ فوج، رینجرز، سیاسی جماعتوں اور فلاحی اداروں نے بھی تھر کے لوگوں کی امداد شروع کردی ہے؛ اور سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف بھی تھر کا دورہ کرنے والے ہیں۔