ماہرین کا کہناہے کہ اگر چین نے اپنی ڈرون ٹیکنالوجی کو جارحانہ مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا، مثلاً مشتبہ عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانا وغیرہ تو یہ امریکہ کے لیے ایک اور بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔
تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ چین اپنے تیزی سے بڑھتے ہوئے دفاعی بجٹ کو اپنی ڈرون ٹیکنالوجی کو زیادہ ترقی یافتہ اور مؤثر بنانے کے لیے استعمال کررہاہے جس سے یہ خدشات پیدا ہوگئے ہیں کہ وہ امریکہ کو اس ٹیکنالوجی میں حاصل عالمی برتری کو جلد ہی چیلنج کرنے کے قابل ہوجائے گا۔
جنوبی ساحلی شہر زہوہائی میں ایک حالیہ ائیرشو میں چین نے بغیر پائلٹ کے اڑنے والے جہازوں کا ایک جدید ماڈل پیش کیا ہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ چین کے تیارکردہ مذکورہ ڈرون ماضی کے مقابلے میں بڑے تھے اور ان میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا تھا۔
ائیر ٹیکنالوجی سے متعلق کئی ماہرین کا کہناہے کہ نمائش میں رکھے جانے والے کئی ڈرون بظاہر امریکی ڈرون ٹیکنالوجی کی نقل دکھائی دے رہے تھے۔
ایسے شواہد موجود ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ واشنگٹن کو چین کے تیارکردہ ڈورنز پر تشویش ہے۔ جولائی میں امریکی محکمہ دفاع کی ایک مشاورتی کمیٹی کی جانب سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیاتھا کہ دفاعی شعبے میں بیجنگ کے بڑھتے ہوئے اخراجات اور جدید تحقیق امریکی ڈرون ٹیکنالوجی کے لیے ایک خطرہ بن سکتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ چین کے نئے ڈرون خطرے کی علامت ہیں۔
چین کا، جسے بحیرہ چین میں اپنے متعدد ہمسایہ ممالک کے ساتھ تنازعات کا سامنا ہے، کہناہے کہ ساحلی علاقوں اور بحیرہ چین کے پانیوں کی نگرانی کا اس کا مشن پرامن ہے اور وہ نگرانی کا عمل مؤثر بنانے کے لیے 2015تک ساحلی علاقوں میں 11 ڈرون مراکز قائم کرے گا۔
چین کے سرکاری میڈیا کا کہناہے کہ بیجنگ اپنی ڈرون ٹیکنالوجی کو دفاعی مقاصد کے ساتھ ساتھ منشیات کی غیر قانونی تجارت کی روک تھام، ٹریفک حادثات اور امدادی سرگرمیوں کے لیے بھی استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
ماہرین کا کہناہے کہ اگر چین نے اپنی ڈرون ٹیکنالوجی کو جارحانہ مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا، مثلاً مشتبہ عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانا وغیرہ تو یہ امریکہ کے لیے ایک اور بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔
امریکہ کو یہ تشویش بھی ہے کہ چین نے دنیا بھر میں اپنے ڈرون فروخت کرنے شروع کردیے ہیں اور امریکی ڈرونز کے مقابلے میں کم قیمت ہیں، جس سے امریکی ڈرونز کی فروخت متاثر ہوسکتی ہے۔
جنوبی ساحلی شہر زہوہائی میں ایک حالیہ ائیرشو میں چین نے بغیر پائلٹ کے اڑنے والے جہازوں کا ایک جدید ماڈل پیش کیا ہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ چین کے تیارکردہ مذکورہ ڈرون ماضی کے مقابلے میں بڑے تھے اور ان میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا تھا۔
ائیر ٹیکنالوجی سے متعلق کئی ماہرین کا کہناہے کہ نمائش میں رکھے جانے والے کئی ڈرون بظاہر امریکی ڈرون ٹیکنالوجی کی نقل دکھائی دے رہے تھے۔
ایسے شواہد موجود ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ واشنگٹن کو چین کے تیارکردہ ڈورنز پر تشویش ہے۔ جولائی میں امریکی محکمہ دفاع کی ایک مشاورتی کمیٹی کی جانب سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیاتھا کہ دفاعی شعبے میں بیجنگ کے بڑھتے ہوئے اخراجات اور جدید تحقیق امریکی ڈرون ٹیکنالوجی کے لیے ایک خطرہ بن سکتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ چین کے نئے ڈرون خطرے کی علامت ہیں۔
چین کا، جسے بحیرہ چین میں اپنے متعدد ہمسایہ ممالک کے ساتھ تنازعات کا سامنا ہے، کہناہے کہ ساحلی علاقوں اور بحیرہ چین کے پانیوں کی نگرانی کا اس کا مشن پرامن ہے اور وہ نگرانی کا عمل مؤثر بنانے کے لیے 2015تک ساحلی علاقوں میں 11 ڈرون مراکز قائم کرے گا۔
چین کے سرکاری میڈیا کا کہناہے کہ بیجنگ اپنی ڈرون ٹیکنالوجی کو دفاعی مقاصد کے ساتھ ساتھ منشیات کی غیر قانونی تجارت کی روک تھام، ٹریفک حادثات اور امدادی سرگرمیوں کے لیے بھی استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
ماہرین کا کہناہے کہ اگر چین نے اپنی ڈرون ٹیکنالوجی کو جارحانہ مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا، مثلاً مشتبہ عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانا وغیرہ تو یہ امریکہ کے لیے ایک اور بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔
امریکہ کو یہ تشویش بھی ہے کہ چین نے دنیا بھر میں اپنے ڈرون فروخت کرنے شروع کردیے ہیں اور امریکی ڈرونز کے مقابلے میں کم قیمت ہیں، جس سے امریکی ڈرونز کی فروخت متاثر ہوسکتی ہے۔