روس کا یوکرین کے متعدد ڈرون مار گرانے کا دعویٰ، ماسکو میں عمارت کو نقصان 

روسی حکام نے یوکرین کے متعدد ڈرون مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے جب کہ ایک ڈرون سےایک کمرشل عمارت کونقصان پہنچنے کی اطلاع دی ہے۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق ماسکو کے میئر سرگئی سوبیانن نے ایک بیان میں کہا کہ منگل کو ماسکو کی جانب آنے والے متعدد ڈرونز کو ایئر ڈیفنس سسٹم کی مدد سے نشانہ بنایا گیا لیکن ایک ڈرون سے ایک کمرشل عمارت کی21 ویں منزل کو نقصان پہنچا ہے۔

میئر کا کہنا تھا کہ متاثرہ عمارت کو پہلے بھی یوکرین کی جانب سے ڈرون حملے کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔

انہوں نے کہا ہےکہ فوری طور پر کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔ جائے وقوع پر ہنگامی سروسز کام کر رہی ہیں۔

روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’ تاس‘ کے مطابق ڈرون حملے کے بعد ماسکو کے ونوکوو انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پروازوں کی آمد اور روانگی کو عارضی طور پر بند کر دیا گیا اور ایئرپورٹ پر آنے والی پروازوں کو دوسرے ایئرپورٹس کی جانب منتقل کر دیا گیا۔

تاس نے بعد میں ایر پورٹ پر معمول کی سرگرمیاں بحال ہونے کی اطلاع دی ہے۔

ماسکو کے میئر کا کہنا ہے کہ یوکرین کے ڈرون نے متاثرہ عمارت کو پہلے بھی نقصان پہنچایا تھا۔

روس کی وزارتِ دفاع نے ماسکو میں ڈرون حملوں کا الزام یوکرین پر عائد کیا ہے اور کہا ہے کہ ماسکو میں مختلف تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

روس کی جانب سے یہ دعویٰ ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب ماسکو نے پیر کو یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی کے آبائی قصبے میں میں دو میزائل حملے کیے تھے جس کے نتیجے میں چھ افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو ئے تھے۔

SEE ALSO: یوکرین میں روس کا میزائل حملہ، کم از کم چھ افراد ہلاک، امدادی کام جاری

روس کے اس حملے کے بعد یوکرین کے صدر نے انتباہ کیا تھا کہ 'جنگ اب روس کی جانب بڑھ رہی ہے۔'

ولودیمیر زیلنسکی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ آہستہ آہستہ جنگ روس کے علامتی مراکز اور فوجی تنصیبات کی طرف بڑھ رہی ہے اور یہ ایک ناگزیر، قدرتی اور منصفانہ عمل ہے۔

یوکرین کی سرحد سے ماسکو کا فاصلہ لگ بھگ 500 کلو میٹر کا ہے۔ فریقین کے درمیان گزشتہ ایک سال سے زائد عرصے سے جاری جنگ کے دوران ماسکو پر اس طرح کے کم ہی حملے ہوئے ہیں۔

منگل کو ہونے والا حملہ حال ہی میں ہونے والے ڈرون حملوں کا تسلسل ہے۔ اتوار کو بھی روسی حکام نے یوکرین کے ڈرون مار گرانے کا دعویٰ کیا تھا۔

اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔