شمالی وزيرستان کے صدر مقام ميران شاہ ميں ہلکی دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ لیکن، پھر بھی گرمی کی شدت محسوس کی جا سکتی تھی۔
زبير الرحمٰن مکئی کے کھيت ميں کام کر رہے تھے۔ ان کی نظر کھیتوں کے قریب اپنے گھر پر پڑتی تو خیالوں میں گُم ہو کر ان کا ذہن ماضی میں چلا جاتا ہے۔
چند سال پہلے وہ ٹھيک اسی جگہ اپنی دادی کے ہمراہ کام ميں مصروف تھے جب امريکی ڈرون طیارے نے مبینہ طور پر ان پر ميزائل داغے۔ اس حملے ميں ان کی دادی ہلاک ہو گئیں جب کہ وہ بھی زخمی ہوئے۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے زبير الرحمٰن نے بتايا کہ اس حملے کے بعد ان کی تعليم کا سلسلہ منقطع ہو گيا اور وہ شديد پريشانی کا شکار ہوئے۔
زبير کا خاندان اپنی بے گناہی کا رونا مسلسل روتا رہا۔ ليکن ڈرون حملے پھر بھی بند نہ ہوئے۔
شمالی وزيرستان کو دنيا کا سب سے خطرناک علاقہ تصوّر کيا جاتا تھا۔ افغانستان کے صوبے خوست سے منسلک يہ علاقہ نہ صرف مقامی بلکہ القاعدہ کے جنگجووں کا مرکز رہا۔ آئے روز دہشت گردی کے واقعات، ڈرون حملوں کا خوف اور دھماکے معمول کی بات تھی۔
پاکستانی فوج نے جون 2014 ميں ‘ضرب عضب’ کے نام سے آپريشن کے ذریعے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی شروع کی، جس کی وجہ سے زبير کا خاندان بھی دوسرے لاکھوں لوگوں کی طرح اس علاقے سے نقل مکانی پر مجبور ہوا۔
شمالی وزيرستان ميں سيکڑوں ڈرون حملے ہوئے، جس ميں شدت پسندوں کے ساتھ ساتھ عام شہری بھی نشانہ بنے۔
نور بہرام کا تعلق شمالی وزيرستان سے ہے۔ وہ صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی کارکن بھی ہيں اور انھوں نے اپنے علاقے ميں ہونے والے ڈرون حملوں کو عالمی سطح پر اُجاگر کيا۔
پاکستان ميں سب سے پہلا ڈرون حملہ 2004 ميں طالبان کمانڈر نيک محمد پر ہوا تھا۔ اس کے بعد ڈرون حملوں ميں بے شمار طالبان کمانڈر اور القاعدہ رہنما نشانہ بنے۔
تحريک طالبان کے سرکردہ رہنما بيت اللہ محسود، حکيم اللہ محسود، ولی الرحمٰن اور فضل اللہ بھی ڈرون حملوں کا نشانہ بنے۔
نور بہرام اس بات سے اتفاق کرتے ہيں کہ طالبان اور القاعدہ کو ختم کرنے ميں ڈرون حملوں نے اہم کردار ادا کيا۔ تاہم، اس کے ساتھ ساتھ ان ڈرون حملوں میں عام شہریوں کو بھی نشانہ بنايا گيا جو سراسر خلاف قانون تھا۔
ايک واقعے کو ياد کرتے ہوئے انھوں نے بتايا کہ ڈانڈے درپہ خيل ميں ايک گھر پر حملے ميں 21 بچے اور خواتين ہلاک ہوئیں۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے نور بہرام نے بتايا کہ محض چند کمانڈروں کو مارنے کی خاطر سینکڑوں بے گناہ شہريوں کو مارنا کہاں کا انصاف ہے۔
نور بہرام کا کہنا ہے کہ ڈرون حملوں نے علاقے ميں شدت پسندی کو دوّام بخشا۔
بيت اللہ محسود کے ساتھ اپنی ايک ملاقات کا حوالہ ديتے ہوئے نور بہرام نے بتايا کہ پہلے دہشت گرد چار ماہ ميں ايک خود کش حملہ آور تيار کرتے تھے ليکن ڈرون حملوں نے دہشت گردوں کا کام آسان کر ديا اور قاری حسين، مبینہ امريکی ڈرون حملوں ميں شہریوں کی ہلاکتوں کی ویڈیو دکھا کر لوگوں کو خودکش حملوں میں استعمال ہونے کے لیے آمادہ کرتے تھے۔
اپنی جدوجہد کے بارے ميں نور بہرام نے بتايا کہ انھوں نے اس سلسلے ميں کئی ممالک کا دورہ بھی کيا۔ جس کا فائدہ يہ ہوا کہ امريکہ نے آئندہ حملوں میں بہت زيادہ احتياط کا مظاہرہ کيا جس سے ‘کوليیٹرل ڈيمج’ بہت کم ہوا اور حملوں ميں زيادہ تر اصل ٹارگٹ کو ہی نشانہ بنايا گيا۔
شمالی وزيرستان اب مکمل طور پر پاکستانی فوج کے کنٹرول ميں ہے۔ زبير الرحمٰن دوسرے ہزاروں لوگوں کی طرح اپنے گھر کو واپس آ چکے ہيں۔ ان کے زخم بھی ٹھيک ہو چکے ہيں۔ اب آسمان ميں کوئی ڈرون ان کو خوف زدہ نہیں کرتا اور وہ پہلے کی طرح کبھی بھی بادلوں کی دعائيں نہیں مانگتے۔
زبير اپنی ادھوری تعليم دوبارہ شروع کر چکے ہيں اور مستقبل ميں اپنے خاندان کا نام روشن کرنا چاہتے ہيں۔ تاہم، اپنی دادی کی ياديں اب بھی ان کے دل و دماغ سے نہیں جاتيں۔
ملک بھر ميں رہنے والے دوسرے پاکستانيوں کی طرح زبير اور ان کے اہل خانہ نے بھی جشن آزادی دھوم دھام سے منایا۔ زبير کا کہنا تھا کہ ہم اب جشن آزادی کے ساتھ ساتھ ڈرون سے آزادی بھی مناتے ہيں۔