ڈاکٹر آفریدی کی قید کو چھ سال بیت گئے

ڈاکٹر شکیل آفریدی (فائل فوٹو)

امریکی محکمہ خارجہ نے رواں ہفتے وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک بیان میں کہا تھا کہ "ہمارا خیال ہے کہ ڈاکٹر آفریدی کو غیرمنصفانہ طور پر قید کیا گیا

دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے روپوش راہنما اسامہ بن لادن کی تلاش میں مبینہ طور پر کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکی کانگرس "ڈاکٹر ہیرو" کہہ کر پکارتی ہے لیکن ان کے آبائی وطن پاکستان میں وہ ایک غدار تصور کیے جاتے ہیں اور گزشتہ چھ سال سے جیل میں قید ہیں۔

ان کی قید کے معاملے کے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات پر بھی منفی اثرات دیکھے جا چکے ہیں۔

مئی 2011ء میں پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں امریکی اسپیشل فورسز کے ایک خفیہ آپریشن میں بن لادن کی موت کے بعد ڈاکٹر آفریدی کو پاکستانی حکام نے گرفتار کیا تھا اور اس پر الزام تھا کہ اس نے سی آئی اے کی مدد کے لیے علاقے میں ایک جعلی ویکسینیشن مہم چلائی تاکہ بن لادن کی یہاں موجودگی کی تصدیق ہو سکے۔

لیکن ان پر قبائلی علاقوں میں ملک دشمن کالعدم دہشت گرد تنظیموں سے روابط پر مقدمہ چلا کر طویل قید کی سزا سنائی گئی۔

امریکہ بارہا ڈاکٹر آفریدی کی رہائی کے لی پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈال چکا ہے لیکن تاحال واضح نہیں کہ حکومت اس مقدمے میں کیا کاوش کر رہی ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے رواں ہفتے وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک بیان میں کہا تھا کہ "ہمارا خیال ہے کہ ڈاکٹر آفریدی کو غیرمنصفانہ طور پر قید کیا گیا اور ہم واضح طور پر اس بارے میں پاکستان کو اپنے موقف سے آگاہ کر چکے ہیں۔"

بیان میں مزید کہا گیا کہ "ہم پاکستان کی قیادت سے ہونے والی اعلیٰ سطحی بات چیت میں اس معاملے کو اٹھاتے آ رہے ہیں۔ پاکسان نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ ڈاکٹر آفریدی کی صحت ٹھیک ہے اور ان سے اچھا برتاؤ کیا جا رہا ہے۔"

ڈاکٹر آفریدی کے مقدمے کی پیروی بھی کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ان کے موجودہ وکیل کرم ندیم گزشتہ 34 ماہ سے اپنے موکل سے مل نہیں سکے ہیں۔ ندیم سے پہلے ڈاکٹر آفریدی کی وکالت کرنے والے سمیع اللہ آفریدی اس مقدمے سے علیحدہ ہو کر سلامتی کے خدشات کے باعث دبئی منتقل ہو گئے تھے۔

وطن واپس آنے پر مارچ 2015 میں انھیں فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا اور اس کی ذمہ داری جنداللہ اور جماعت الاحرار نامی دہشت گرد گروپوں نے قبول کی تھی۔

ندیم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "قبائلی ٹربیونل اب تک اس مقدمے کی سماعت کو 30 بار ملتوی کر چکا ہے، کیونکہ استغاثہ عدالت میں پیش ہی نہیں ہوتے۔" مقدمے کی آخری سماعت 12 اپریل کو ہونا تھی لیکن اس پیشی پر بھی سرکاری وکیل عدالت میں پیش نہ ہوئے اور اس بار بھی عدالتی کارروائی ملتوی کر دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ "مقدمے کی حساسیت کی وجہ سے ہم بھی اس کی سماعت کے لیے زیادہ دباؤ نہیں ڈال رہے اور انتہائی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔"

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی گزشتہ نومبر میں انتخابات میں کامیابی سے ایسی امیدیں پیدا ہوئی تھیں کہ ڈاکٹر آفریدی سے متعلق معاملات شاید مثبت رخ اختیار کریں۔ ٹرمپ اپنی صدارتی مہم کے دوران ڈاکٹر آفریدی سے پاکستان کے سلوک پر خاصی تنقید کرتے رہے اور "فاکس نیوز" سے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ آفریدی کو "دو منٹ" میں رہا کروا لیں گے۔

پاکستان نے ایسے دعوؤں پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔ وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثارعلی خان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ایک اختیار نہیں کہ وہ (پاکستان کو) یہ ہدایت دے کہ ڈاکٹر آفریدی کا مقدمہ کیسے لڑنا ہے۔

ڈاکٹر آفریدی کے خاندان والے ان کی گرفتاری کے بعد سے خاصا محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہیں اور ڈاکٹر آفریدی کے وکیل کے ذریعے انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ بھی اس قانونی عمل (کی سست روی پر) اضطراب کا شکار ہیں۔