ایران میں درجنوں نوعمر مجرموں کو سزائے موت کا سامنا: ایمنسٹی

لندن میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم نے یہ بھی کہا کہ 2005 سے 2015 تک ایران نے کم از کم 73 نوعمر مجرموں کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا جن میں سے کم از کم چار کو گزشتہ سال یہ سزا دی گئی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ایران میں حالیہ اصلاحات کے باوجود ان افراد کی سزائے موت پر علمدرآمد کیا جا سکتا ہے جنہیں 18 سال سے کم عمر میں کئے گئے جرائم میں سزا کا مرتکب قرار دیا گیا تھا۔ ان میں سے بہت سے افراد کئی سالوں سے قید میں ہیں۔

لندن میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم نے یہ بھی کہا کہ 2005 سے 2015 تک ایران نے کم از کم 73 نوعمر مجرموں کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا جن میں سے کم از کم چار کو گزشتہ سال یہ سزا دی گئی۔

منگل کو جاری کی گئی ایمنسٹی کی 110 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں ایران پر ایسے وقت دباؤ بڑھایا گیا ہے جب تہران جوہری معاہدے پر عملدرآمد کے بعد مغربی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

رواں ماہ ایران کی طرف سے اپنا جوہری پروگرام محدود کرنے کے اقدامات کے بعد اس معاہدے پر عملدرآمد شروع کیا گیا اور ایران پر عائد عالمی پابندیاں اٹھا لی گئیں۔

پیر کو ایران کے صدر حسن روحانی یورپ کے دورے پر روم پہنچے۔ یہ لگ بھگ 20 سال میں کسی ایرانی صدر کا یورپ کا پہلا دورہ ہے۔ اس دورے میں صدر روحانی ویٹیکن اور فرانس بھی جائیں گے جہاں کئی تجارتی معاہدے متوقع ہیں۔

ایران دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ سزائے موت دی جاتی ہے۔ ایمنسٹی کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق 2014 میں چین کے بعد ایران میں سب سے زیادہ افراد کو سزائے موت دی گئی۔ مجموعی طور پر سب سے زیادہ سزائے موت منشیات کی اسمگلنگ پر دی گئی۔ ایران اس راستے پر واقع ہے جس کے ذریعے افغانستان سے یورپ منشیات اسمگل کی جاتی ہیں۔

ایمنسٹی کے تحقیق کاروں نے سزائے موت کا سامنا کرنے والے 49 نو عمر قیدیوں کے نام اور مقام کا پتا چلایا ہے۔ تاہم ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ ان کی اصل تعداد اس سے زیادہ ہو سکتی ہے۔

اقوام متحدہ کی 2014 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سزائے موت کا سامنا کرنے والے نوعمر قیدیوں کی تعداد 160 سے زیادہ ہو سکتی ہے۔

گزشتہ ایک دہائی کے دوران جن 73 نو عمر قیدیوں کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا گیا ان کی اکثریت پر قتل کا الزام تھا۔ دیگر کو زنابالجبر اور منشیات اور قومی سلامتی سے متعلق جرائم میں سزائے موت دی گئی تھی۔

ایمنسٹی کی رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ 2013 میں متعارف کرائی جانے والی اصلاحات میں ججوں کو اس بات کا زیادہ صوابدیدی اختیار دیا گیا ہے کہ وہ نوعمر مجرم کی ذہنی بلوغت کو مدنظر رکھتے ہوئے کم سخت سزائیں دیں۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ سزائے موت کے منتظر نوعمر قیدیوں کے مقدمے کی دوبارہ سماعت کی جا سکتی ہے۔ گزشتہ سال متعارف کرائی جانے والی اصلاحات کے مطابق نوعمر قیدیوں کے مقدموں کی سماعت سپیشل جوونائل عدالتیں کریں گی۔

تاہم ایمنسٹی نے ایران سے کہا ہے کہ وہ مزید بہتری لائے۔

’’جوونائل جسٹس اصلاحات کے باوجود ایران باقی دنیا سے پیچھے ہے اور وہاں ایسے قوانین موجود ہیں جن کے تحت نو سال کی کم عمر لڑکی اور 15 سال کے کم عمر لڑکے کو بھی موت کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔‘‘