پاکستان میں گدھوں کی قدر، قیمتیں اور اسمگلنگ بڑھ گئی

ایک گدھا گاڑی کے مالک سہیل نواب نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’جب سے گدھوں کی چین کو اسمگلنگ اور کھالیں برآمد کرنے کی خبریں آئی ہیں، گدھوں کی قسمتیں سنور گئی ہیں۔ میں نے اپنا گدھا 25 ہزار روپے میں خریدا تھا اب اس کی قیمت 40 ہزار روپے ہے۔‘‘

پاکستان میں جہاں کھانے پینے کی اشیاء مہنگی ہوگئی ہیں وہیں گدھوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔

ایک گدھا گاڑی کے مالک سہیل نواب نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’جب سے گدھوں کی چین کو اسمگلنگ اور کھالیں برآمد کرنے کی خبریں آئی ہیں، گدھوں کی قسمتیں سنور گئی ہیں۔ میں نے اپنا گدھا 25 ہزار روپے میں خریدا تھا اب اس کی قیمت 40 ہزار روپے ہے۔‘‘

شاید یہ زیادہ قیمتوں کا ہی ’کرشمہ‘ ہے کہ کراچی میں رواں سال اپریل کےآخر میں شارع فیصل پولیس نے گلستان جوہر کے علاقے میں چھاپہ مار کر کروڑوں روپے مالیت کی گدھوں کی کھالیں برآمد کرکے ایک چینی باشندے تو ژونگ ژیو سمیت 7 ملزمان کو گرفتار کرلیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اسے بڑے پیمانے پر کھالیں غیر قانونی طریقے سے چین اسمگل کئے جانے کی اطلاعات ملی تھیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بھی 26 اپریل کو ایک خفیہ اطلاع پر اس نے کراچی کے ہی ایک علاقے میں چھاپہ مار کر چار ہزار نو چھیاسی گدھے کی کھالیں برآمد کی تھیں۔ مقامی مارکیٹ میں ایک کھال کی قیمت 25ہزار روپے ہے۔

پاکستان حکومت نے تین ستمبر 2015 کو گدھوں کی کھالیں برآمد کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔ تاہم، اس سے قبل پاکستان میں بڑی تعداد میں گدھوں کی کھالیں بیرون ملک برآمد کی جاتی تھیں۔

رواں سال کے شروع مہینے کی آخری تاریخوں میں قومی اسمبلی میں وزیر تجارت انجینئر خرم دستگیر نے بتایا تھا کہ ’’گزشتہ پانچ سالوں کے دوران گدھوں کی ایک لاکھ اکتالیس ہزار پچھر کھالیں چین کو برآمد کی گئیں۔‘‘

پاکستان میں گدھوں کی تعداد 52 لاکھ سے زیادہ ہے۔ یہ بات رواں مالی سال کے آغاز پر جاری ہونے والی اقتصادی سروے رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں گدھوں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔

اسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے مالی سال کے مقابلے میں اس سال مئی تک گدھوں کی آبادی میں ایک لاکھ اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جبکہ اس کے مقابلے میں گھوڑے اور خچر کی آبادی کم ہوئی ہے۔

اسمگلنگ اور درآمد کی وجہ؟

پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں گدھوں کی آبادی کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ اس کی وجہ چین میں ان کی کھالوں کی زبردست مانگ ہے۔ چین میں نہ صرف گدھوں کا گوشت شوق سے کھایا جاتا ہے، بلکہ روایتی ادویات، جیلوٹن اور کاسمیٹک پروڈکٹس تیار کرنے میں بھی ان کا استعمال عام ہے۔

زیادہ استعمال کے سبب وہاں گدھوں کی تعداد کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے جس کے سبب دوسرے ممالک سے گدھے منگوائے جاتے ہیں۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 1990 میں چین میں گدھوں کی تعداد ایک کروڑ دس لاکھ تھی جو آج کم ہوکر 30 لاکھ رہ گئی ہے۔

اب تک پاکستان کے علاوہ چھ افریقی ممالک بھی گدھوں کی کھالیں یا گدھے چین برآمد کرنے پر پابندی لگا چکے ہیں۔

گدھے کی کھالوں کو پانی میں ابال کر جو جیلاٹین بنائی جاتی ہے اس کی قیمت بازار میں بہت زیادہ ہے۔

حالیہ چند برسوں میں پاکستان میں گدھوں کی قیمت میں اضافے کی وجہ بھی یہی ہے۔ گدھے پالنے اور ان کی سارا سال دیکھ بھال کرنے والے عثمان آباد کراچی کے نوجوان رہائشی محمد اویس وی او اے کے ایک سوال پر بڑے دلچسپ انداز میں ہنستے ہوئے بتایا کہ ’’مشرف کی حکومت ختم ہونی تھی کہ گدھوں کی قیمت بڑھ گئی۔‘‘

ایک اور نوعمر گدھا بان محمد آصف نے اپنے تئیں معلومات دیتے ہوئے بتایا ’’کہ گدھے کے کان میں پردا نہیں ہوتا۔ لہذا، ذرا سا بھی پانی چلا جائے تو وہ مرجاتا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’’گدھا جب تک مٹی میں نہ لوٹے اسے مزا نہیں آتا۔ لیکن اس دوران اگر کوئی اجنبی اس کے پاس سے گزر جائے تو وہ ایسی دولتی رسید کرتا ہے کہ انسان کے گھٹنے کا درد ساری عمر نہیں جاتا، جبکہ حیران کن طور پر مالک اس کے پاس سے بھی گزر جائے تو اسے گدھا کچھ نہیں کہتا۔‘‘

اسی طرح محمد اویس نے بتایا کہ کراچی میں اکثر و بیشتر گدھوں کی ریس ہوتی ہے۔ اتوار کو وقار عرف ’وکی‘ نام کے ایک شخص کے گدھے نے یہ ریس جیتی۔ اس نے گدھے کی پرورش پر 10ہزار روپے خرچ کئے اور اسے انعام ملا 60 ہزار روپے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ گدھے کمائی کا شاندار ذریعہ بھی ہیں۔ ‘‘

ریس میں دوڑنے والے گدھے عام گدھوں کے مقابلے میں ناصرف انتہائی مہنگے ہوتے ہیں بلکہ ان کی خوراک میں بھی پستہ بادام، دودھ اور دیگر مہنگی اشیاء شامل ہوتی ہیں۔ ایسے گدھوں کی باقاعدہ نیلامی کے لئے منڈیاں لگتی ہیں۔

لیاری کی مارکیٹ میں بھی ہر اتوار کو ایسی ہی گدھوں کی ایک منڈی لگتی ہے جبکہ اندرون سندھ ٹنڈو غلام علی اور دیگر علاقے گدھوں کی سالانہ منڈی لگنے کے اعتبار سے بہت مشہور ہیں۔ اس بار لگنے والی منڈی میں ’طوفان‘ نام کا گدھا 15 لاکھ روپے میں نیلام ہوا، جبکہ ایک اور شخص عبدالجبار کمہار کا ’پارس‘ نامی گدھا 12 لاکھ روپے میں فروخت کیلئےلایا گیا تھا۔