زندگی عطیہ کرنے سے مراد ایسا عطیہ ہےجو دوسروں کو زندگی دے سکے، یا اُن کی زندگی میں غیر معمولی کام آسکے۔
امریکہ میں جسمانی اعضا کے عطیے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ ملک میں ایک اندازے کے مطابق 110541افراد ایسے ہیں جنھیں انسان ہی کے اعضا یا ’ٹشوز‘ کی ضرورت ہے۔ اِن ضرورتمندوں میں 1785بچے شامل ہیں۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ انسان بعض ٹشوز، یہاں تک کہ بعض اعضا، اپنی زندگی میں ہی عطیہ کر سکتا ہے۔ خون عطیے کی سب سے عمومی قسم ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق، انسان اپنی زندگی میں ایک گردہ عطیہ کر سکتا ہے۔ ڈاکٹروں کے بقول، ایک صحت مند گردے کے ساتھ بھی انسان مکمل صحت مند زندگی گزار سکتا ہے۔ یہ بات تو آپ کے علم یا مشاہدے میں آئی ہوگی کہ لوگ اپنے پیاروں کی زندگی بچانے کے لیے اپنے ایک گردے کا عطیہ کر دیتے ہیں۔
اِس طرح ماہرین کے بقول، جگر بھی ایک ایسا حصہ ہے جو ٹشوز کی طرح نشو نما پانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لہٰذا، ماہرین ِ جگر کے ٹکڑوں کی پیوندکاری سے کسی بھی مریض کی جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں، جب کہ عطیہ دہندہ کے جگر کے جِن حصوں سے ٹشوز لیے جاتے ہیں وہاں وہ خود بخود اُگ آتے ہیں۔
اِس کے علاوہ جِلد کے عضلات بھی کئی صورتوں میں عطیہ کیے جاسکتے ہیں۔ بعد از مرگ جن چیزوں کا عطیہ دیا جا سکتا ہے یا وہ دوسروں کے کام آسکتی ہیں، اُن میں دل اور آنکھیں وغیرہ شامل ہیں۔
امریکہ میں کئی ایک تنظیمیں ’ڈیٹا بینک‘ رکھتی ہیں اور عطیہ دینے والوں اور عطیہ لینے والوں کے درمیان رابطے کا کام کرتی ہیں۔
امریکہ میں ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کے وقت فارم پر یہ سوال درج ہوتا ہے کہ، ’کیا آپ ڈونر بننا چاہتے ہیں؟ ‘ شہری کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اُس خانے میں اپنی رضامندی ظاہر کرے یا انکار کردے۔ ڈرائیونگ لائسنس پر واضح طور پر یہ تحریر ہوتا ہےکہ ڈرائیور ایک ڈونر ہے یا نہیں۔
امریکہ میں ’ڈونیٹ لائف‘ کےحوالے سے شعور بیدار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ادارے شہریوں کو فیکٹ شیٹس فراہم کرتے ہیں جِن میں بتایا گیا ہےکہ امریکہ میں تقریباً تمام مذاہب اعضا، آنکھیں اور ٹشوز کے عطیے کو انسانیت کے ساتھ محبت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ کوئی بھی شخص اپنی عمر، نسل اور طبی پسِ منظر سے قطعِ نظر عطیہ دہندگان میں شامل ہو سکتا ہے۔
بعض ذہنوں میں یہ مفروضہ ہو سکتا ہے کہ ڈونر ہونے کی صورت میں کسی حادثے کا شکار ہونے پر ڈاکٹر جان بچانے کی بجائے اعضا کے عطیے کے حصول پر توجہ دے سکتے ہیں۔ اِس مفروضے کی واضح الفاظ میں امریکہ میں تردید کی جاتی ہے اور متعدد معلوماتی کتابچوں اور ویب سائٹس پر یہ واضح انداز میں درج ہے کہ ڈاکٹر حضرات صرف اور صرف آپ کی جان بچانے کو مقدم سمجھتے ہیں۔
عطیہ محض اُسی صورت میں لیتے ہیں جب انسان کی روح قفس ِعنصری سے پرواز کر جاتی ہے۔ یعنی، طبی طور پر موت واقع ہوجاتی ہے۔
اگر آپ کا نام عطیہ حاصل کرنے والوں کی فہرست میں ہے تو آپ کی ضرورت کی شدت، انتظار کے عرصے اور طبی معلومات کی بنیاد پر ترجیح کا تعین ہوتا ہے، نا کہ دولت سے یا شہرت کی بنیاد پر۔ امریکہ میں عطیہ دینے والوں یا اُس کے خاندان کو عطیے کے عوض کسی طرح کی مالی مدد فراہم نہیں کی جاتی۔
’ڈونیٹ لائف‘ نامی ویب سائٹ کے مطابق سال 2010ء میں ’ٹرانسپلانٹیشن‘ یعنی اعضا کی منتقلی کے 28663آپریشن کیے گئے۔ سال 2010ء میں 14502افراد نے اپنے اعضا عطیہ کیے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: