امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اس دعوے پر قائم ہیں کہ اوباما انتظامیہ نے ٹرمپ ٹاور میں برطانونی سکیورٹی کے تعاون سے ان کے فون ٹیپ کئے تھے جسے برطانوی حکام "مضحکہ خیز" قرار دے کر مسترد کر چکے ہیں۔
ٹرمپ نے جمعہ کو جرمن چانسلر اینگلا مرکل کے ہمراہ ایک نیوز کانفرنس کے موقع پر نامہ نگاروں سے گفتگو کی۔
فون ٹیپنگ کے الزام کے بارے میں پوچھے گئے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں ٹرمپ نے ایک فون ٹیپنگ اسکینڈل کا حوالہ دیا جس میں امریکہ کے سکیورٹی سے متعلق عہدیداروں نے مرکل کی ذاتی گفتگو سننے کے لئے ان کے فون کی نگرانی کی تھی۔
ٹرمپ نے مرکل کو کہا کہ "جہاں تک سابق انتظامیہ کی طرف سے فون ٹیپنگ کا معاملہ ہے اور میرے خیال میں شاید ہمارے درمیان ایک بات مشترک ہے۔" تاہم چانسلر مرکل نے اس پر کسی ردعمل کا اظہار نا کیا۔
واضح رہے کہ جمعرات کو وائٹ ہاؤس کے ترجمان شان سپائسر نے ان دعوؤں کو تقویت دینے کے لئے امریکی ٹی وی چینل فاکس نیوز کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ برطانیہ کی 'جی سی ایچ کیو' نامی ایجنسی ٹرمپ ٹاور میں فون ٹیپنگ میں مبینہ طور پر ملوث تھی۔
فاکس نیوز کے میزبان اینڈریو نپولیٹانو نے دعویٰ کیا کہ "انٹیلی جنس کے تین ذرائع نے فاکس نیوز کو بتایا کہ صدر اوباما نے چین آف کمانڈ سے ماورا " اس نگرانی کا حکم دیا اور جی سی ایچ کیو اس میں ملوث تھی۔"
دوسری طرف جی سی ایچ کیو کے ایک ترجمان نے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ "میڈیا کے مبصر ۔۔ اینڈریو نپولیٹانو کی طرف سے جی سی ایچ کیو سے متعلق دیا گیا بیان کہ اسے 'اس وقت منتخب صدر کے فون ٹیپ' کرنے کے لئے کہا ہے یہ فضول بات ہے۔"
دوسری طرف برطانیہ کی وزیراعظم تھریسا مے کے ایک ترجمان نے جمعہ کو ٹرمپ کے دعوؤں کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کے مابین طے پانے والے ایک سمجھوتے کی وجہ سے برطانیہ کے لئے ناممکن ہو گا کہ وہ کسی امریکی شہری کی نگرانی کرے۔ ترجمان نے کہا کہ برطانیہ کو وائٹ ہاؤس کی طرف سے یہ یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ ان دعوؤں کو دہرایا نہیں جائے گا۔
وائٹ ہاؤس نے اپنے دعوے کی حمایت میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا ہے تاہم یہ کہا کہ وہ صرف "سامنے آنے والی رپورٹوں" کو دہرا رہے ہیں۔
جمعہ کی دوپہر کو فاکس نیوز کے ایک اینکر نے ٹی وی پر ایک بیان پڑھتے ہوئے کہا کہ "فاکس نیوز کسی بھی طرح کے ثبوت سے آگاہ نہیں ہے کہ امریکہ کے صدر کے کسی بھی وقت اور کسی بھی مرحلے پر فون ٹیپ کئے گئے ہیں۔"
سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی میں شامل دو سینیٹروں ریپبلکن رچرڈ بر اور ڈیموکریٹ مار وارنر نے جمعرات کو کہا تھا کہ ''ہمیں دستیاب اطلاعات کی بنیاد پر، کوئی ایسا عندیہ نہیں ملا کہ 2016ء کے انتخابات کے دِن یا اُس سے پہلے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی حکومت کے کسی اہل کار کی جانب سے ٹرمپ ٹاور کی نگرانی کی گئی''۔
دوسری طرف ایوان نمائندگان کے اسپیکر پال رائن نے بھی صدر کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ "ہم نے اس معاملے کو صاف کر لیا ہے اور ہمیں اس بات کے کوئی شواہد نہیں ملے۔"
اوباما ان الزامات کو " صاف جھوٹ" قرار دے کر مسترد کر چکے ہیں۔