بلوچستان میں مبینہ گم شدگیوں کا معاملہ ہو یا صوبے کی سیاست اور حکومت میں مبینہ مداخلت، سب سے زیادہ پاکستان کی فوج ہی تنقید اور الزامات کی زد میں رہتی ہے۔ لیکن وائس آف امریکہ کے حالیہ سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بلوچستان میں سب سے زیادہ قابلِ اعتماد قومی ادارہ فوج ہے.
وائس آف امریکہ نے یہ سروے بین الاقوامی ادارے اپسوس کے ذریعے کرایا تھا۔ اس سائنٹیفک سروے میں پورے پاکستان سے تعلق رکھنے والے 18 سے 34 برس عمر کے افراد سے رائے لی گئی تھی۔
اس سروے میں قومی اداروں پر اعتماد سے متعلق پوچھے گئے سوال میں پاکستان کے نوجوانوں کی بھاری اکثریت (74 فی صد) نے فوج پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
سروے کے نتائج کے مطابق دوسرے صوبوں کے مقابلے میں بلوچستان میں فوج پر نوجوانوں کا اعتماد نسبتاً زیادہ ہے۔ سروے کے مطابق بلوچستان سے تعلق رکھنے والے تقریباً 12 فی صد نوجوانون نے فوج پر مکمل عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
بلوچستان کو گزشتہ کئی دہائیوں سے امن و امان سے متعلق چیلنجز کا سامنا ہے۔ یہاں علیحدگی پسند تنظیمیں بھی متحرک ہیں جب کہ صوبے میں شورش کے خاتمے کے لیے مختلف اوقات میں فوجی آپریشن بھی ہو چکے ہیں۔
انسانی حقوق کی مقامی اور عالمی تنظیمیں بلوچستان میں گم شدگی اور مسخ شدہ لاشیں ملنے جیسے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتی آئی ہیں۔ بلوچ قوم پرست ان کارروائیوں میں سیکیورٹی فورسز کے ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں۔
بظاہر یہ اعداد و شمار صوبے میں فوج کے کردار سے متعلق پائے جانے والے عام تاثر سے مختلف ہیں۔ لیکن سروے کرنے والی کمپنی 'اپسوس' کا کہنا ہے کہ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں اور سائنٹیفک سرویز کے نتائج عام تاثر سے مختلف ہو سکتے ہیں۔
اعتماد سے مراد کیا ہے؟
مکران یونی ورسٹی کے پرو وائس چانسلر اور بلوچستان کونسل فار پیس اینڈ پالیسی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر میر سادات بلوچ کا کہنا ہے کہ پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ فوج پر اعتماد کی نوعیت کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر فوج پر اعتماد عسکری یا پیشہ ورانہ صلاحیت پر ہے تو عالمی سطح پر پاکستانی فوج ایک بہتر ساکھ رکھتی ہے۔ اسی طرح سیلاب یا زلزلے جیسی قدرتی آفات میں ریسکیو کی صلاحیت پر اعتماد کی بات کی جائے تو اس میں بھی تمام اداروں کے مقابلے میں فوج سرِ فہرست ہے۔
حکومتِ بلوچستان کے سابق ترجمان بابر خان یوسفزئی کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں حالیہ برسوں میں صوبے کی تاریخ کا بدترین سیلاب آیا جس میں صوبائی حکومت کے ساتھ پاکستان کی فوج نے بھی ریلیف کی سرگرمیاں انجام دیں۔
ان کے بقول بلوچستان میں نوجوان نسل کے پاکستانی فوج پر اعتماد کی ایک اہم وجہ سیکیورٹی چیلنجز بھی ہو سکتے ہیں۔
بابر خان یوسفزئی کہتے ہیں کہ بلوچستان سے افغانستان اور ایران کی سرحدیں ملتی ہیں جن کی نگرانی فوج کے سپرد ہے۔ اسی طرح پاکستانی فوج بلوچستان میں جاری شورش کا مقابلہ بھی کر رہی ہے۔
SEE ALSO: کیا پاکستانی نوجوانوں کی اکثریت واقعی فوج پر اعتماد کرتی ہے؟حقائق مختلف ہو سکتے ہیں؟
پاکستان میں مارکیٹ ریسرچ سے وابستہ ایک اور ادارے گیلپ پاکستان کے سربراہ بلال گیلانی کہتے ہیں کہ بلوچستان سرویز کے اعتبار سے ایک مشکل علاقہ رہا ہے کیوں کہ بڑے رقبے پر بکھری آبادی اور کمیونی کیشن کے ذرائع محدود ہونے کی وجہ سے بلوچستان کے عوام کی نبض تک پہنچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
اُن کے بقول اگر بلوچستان میں مقیم پشتونوں کی بات کی جائے تو وہ فوج کے بارے میں مثبت رائے رکھتے ہیں۔ لیکن بلوچ آبادیوں میں یا بروہی زبان بولنے والوں میں فوج کے حوالے سے ناراضی پائی جاتی ہے۔
بلوچ ترقی پسند مصنف اور صحافی عابد میر کی رائے بھی یہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پشتون علاقوں یا بلوچستان کے مشرقی حصے میں سروے کے نتائج الگ ہوں گے اور جھالاوان سے مکران تک اس کے نتائج یکسر مختلف ہوں گے۔
عابد میر کا کہنا ہے کہ سروے رپورٹس میں تیکنیکی گڑبڑ کرنا اور من پسند نتائج حاصل کرنا بھی آسان ہوتا ہے اور بلوچستان جیسے علاقے میں کسی سروے کو صوبے بھر کا نمائندہ کہنا کسی صورت درست نہیں۔
یورپ میں مقیم محقق اور بلوچستان سے متعلق امور کے ماہر حمل بلوچ کا کہنا ہے کہ قومی سطح پر ہونے والے سرویز میں پاکستان کے دیگر حصوں کے برعکس بلوچستان سے آنے والے نتائج حقائق سے زیادہ قریب نہیں ہوتے۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے بلوچستان ملٹری آپریشنز کا شکار رہا ہے۔ اس وقت بھی بلوچستان میں زمینی حالات ایسے نہیں کہ کہا جا سکے کہ سب ٹھیک ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ملٹری آپریشنز، دہشت گردی کے واقعات اور احتجاجی لانگ مارچ جیسی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔
SEE ALSO: پاکستان کے نوجوانوں کو ملک کے اداروں پر کتنا اعتماد ہے؟انہوں نے کہا کہ ایسے علاقے میں جہاں کی فضا میں خوف موجود ہے وہاں لوگوں تک رسائی آسان نہیں۔ جب کہ اس طرح کے سروے کے لیے مطلوبہ لوگوں تک رسائی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
حمل بلوچ کا کہنا ہے کہ بلوچستان جیسے علاقے میں جہاں خوف کی فضا ہو اور جہاں ہر شخص یہ سمجھتا ہو کہ اگر اس نے کوئی ایسی ویسی بات کہہ دی تو اسے نقصان ہو سکتا ہے، تو وہاں لوگ کھل کر اظہار نہیں کر پاتے۔
واضح رہے کہ 'اپسوس' نے اس سروے کے لیے تین سے 12 جنوری تک بذریعہ ٹیلی فون نوجوانوں کی رائے معلوم کی تھی۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان جیسے علاقے میں جہاں آبادی کا پھیلاؤ کم ہے اور بیشتر آبادی کو کمیونی کیشن کے جدید ذرائع بھی دستیاب نہیں، وہاں فون پر کیے جانے والے سروے میں اس بات کا امکان رہتا ہے کہ وہ آبادی کی درست نمائندگی نہ کر پائے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سروے بلوچستان کی کتنی نمائندگی کرتا ہے؟
بلال گیلانی کہتے ہیں کہ بلوچستان، پاکستان کے مجموعی رقبے کا 45 فی صد ہے اور یہاں مختلف قومیں آباد ہیں۔ لہذٰا یہاں موبائل فون کے بجائے لوگوں سے مل کر سروے کرانا زیادہ بہتر حکمتِ عملی ہے۔
اُن کے بقول پورے ملک کے مقابلے میں بلوچستان میں موبائل فونز کی دستیابی بھی سب سے کم ہے۔ اس لیے بہتر ہوتا ہے کہ وہاں لوگوں سے براہِ راست مل کر ان کی رائے معلوم کی جائے تاکہ غلطی کا امکان کم سے کم رہے۔
مکران یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر سادات بلوچ کے خیال میں نوجوانوں کے فوج پر اعتماد سے متعلق سروے کے نتائج کی ایک اور توجیہ بھی ممکن ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں جن لوگوں نے 2006 میں پیدا ہونے والے حالات اور اکبر بگٹی کے قتل کے بعد فوج کے خلاف مزاحمت شروع کی تھی وہ اب نوجوانوں میں شمار نہیں ہوتے۔ فوج سے متعلق سب سے زیادہ مزاحمتی رویہ اسی عمر کے افراد میں پایا جاتا ہے۔
ان کے بقول 18 سے 34 سال تک کی عمر کے نوجوان (جن سے سروے میں رائے لی گئی) بلوچستان کی مجموعی آبادی کا چوتھائی حصہ بنتے ہیں۔ اس لیے نوجوانوں کی رائے کو فوج سے متعلق پوری آبادی کی رائے نہیں کہا جاسکتا۔
حمل بلوچ کے مطابق پاکستان جیسے ممالک میں ایسا بھی ہوا ہے کہ بظاہر کچھ خاص اداروں کے حق میں اور خلاف بیانیہ بنایا جاتا ہے۔ مختلف تجزیے اور رپورٹس کہتی ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت، جمہوری اداروں اور رائج سیاسی نظام کے خلاف بیانیہ موجود ہے۔ پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس بیانیے کو بار بار دہرایا جاتا ہے جس کا اثر نوجوانوں پر بھی ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے مین اسٹریم میڈیا میں جن علاقوں سے متعلق سنسرشپ زیادہ ہے ان میں بلوچستان سرِ فہرست ہے۔ اسی لیے پاکستان بھر کے نوجوانوں کے مقابلے میں بلوچستان کے نوجوانوں میں سینسر شپ کے اثرات بھی زیادہ ہیں۔