کینیڈا میں رہنے والی پاکستانی مصنفہ راحیل رضا کہتی ہیں کہ ’ڈاکیومینٹری ہم عورتوں کی کہانی ہے‘
واشنگٹن —
پاکستان سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں عورتوں پر تشدد کے اکثر واقعات غیرت کے نام پر ہوتے ہیں۔۔ غیرت دراصل کیا چیز ہے، یہ مغربی معاشروں میں رہنے والوں کو سمجھانا آسان نہیں۔
لیکن، خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی کچھ تنظیموں نے حال ہی میں اس موضوع کو اپنی ایک ڈاکیومینٹری فلم، آنر ڈائریز (Honor Diaries) کا موضوع بنایا ہے۔ فلم میں خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی9 ایسی خواتین سے ملاقات کروائی گئی ہے، جن کا تعلق پاکستان، بھارت، ایران، عراق اور سوڈان جیسے ملکوں سے ہے، جہاں غیرت کے نام پر ظلم کی کہانیاں زیادہ اجنبی نہیں۔
کینیڈا میں رہنے والی پاکستانی مصنفہ اور صحافی راحیل رضا نے، جن سے ’آنر ڈائریز‘ میں ملاقات کروائی گئی ہے، اردو وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، ’اسلام اور قرآن عورتوں پر جبر نہیں کرتا۔ لیکن، ہمارے اردگرد ہر طرف عورتوں کو ایک مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ امریکہ، کینیڈا اور یورپی ملکوں میں رہنے والے افغان اور پاکستانی گھرانوں میں آنر کلنگز یا غیرت کے نام پر قتل کے واقعات ہوچکے ہیں۔ اور لڑکیوں (یا بیٹیوں) سے سختی سے پیش آنا ایک عام بات ہے۔‘
’سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایک دم مغربی ملک آکر ایسا کیوں ہوجاتا ہے؟ وہ اس لئے کہ لوگ مغربی ملکوں کی طرف نقل مکانی تو کر جاتے ہیں، لیکن ذہنی طور پر اسی قبائلی نظام کا حصہ رہتے ہیں، اسی گاؤں میں مقیم ہوتے ہیں، جہاں سے وہ آئے تھے۔‘
غیرت کے نام پر جرائم کے بارے میں، راحیل نے ایک امریکی ڈاکیومینٹری کا حصہ بننا کیوں قبول کیا؟ اس کے جواب میں راحیل رضا کا کہنا تھا کہ، ’مغرب میں یہ تاثر ہے کہ مسلمان عورتیں جبر کا شکار ہیں۔ میں ایک صحافی تھی۔۔میں مغربی آڈئینس کو بتانا چاہتی تھی کہ جو آپ سمجھتے ہیں ویسا نہیں ہے۔ اس میں فرق بھی ہوتا ہے۔ لیکن، اس کے لئے پہلے مجھے خود سیکھنا تھا۔ میں پہلے خود یہ جواب چاہتی تھی کہ کیا اسلام عورتوں کو دبانا چاہتا ہے۔ میں جھوٹ نہیں بولنا چاہتی تھی۔ تو میں نے اسلام کے بارے میں پڑھنا شروع کیا۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ، ’عورتوں کے بارے میں کتابیں پڑھیں۔اپنی تاریخ پڑھی، اور میں نے محسوس کیا کہ جو غلط چیز ہے، وہ غلط ہے۔ اس کو کسی طرح گول مول کرکے، شریعت کے نام پر کسی بھی طرح درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘
راحیل رضا کہتی ہیں کہ، ’آنر ڈائریز‘ ہم عورتوں کی کہانی ہے۔ ہم عورتیں، جن میں سے کچھ مسلمان ہیں، اور کچھ نہیں، ہم سب نے بہت دل کھول کے ڈاکیومینٹری کے پروڈیوسرز سے بات کی اور انہوں نے اتنے حساس طریقے سے ڈاکیومنٹری تیار کی کہ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ایسا ہو سکتا ہے۔‘
برطانیہ کے ایک سکھ گھرانے سے تعلق رکھنے والی جسوندر سنگھیرا بھی ان جنوبی ایشیائی خواتین میں شامل ہیں جن سے ’آنر ڈائریز‘ میں ملاقات کروائی گئی ہے۔ جسوندر سنگھیرا زبردستی کی شادی اور غیرت کے نام پر ہونے والے جرائم کے خلاف جدو جہد کے لئے کئی سال سے برطانیہ میں ’کرما نروانا‘ کے نام سےایک ادارہ چلا رہی ہیں۔
ڈاکیومینٹری میں، جسوندر سنگھیرا اپنے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ کیسے 14 سال کی عمر میں ان کی ماں نے سکول سے واپس آنے پر انہیں ایک شخص کی تصویر دکھا کر بتایا تھا کہ وہ ان کی منگیتر ہیں۔ جسوندر برطانیہ کے ایک سکول میں پڑھنے والی اپنی سات بہنوں کو ایک ایک کرکے تعلیم ادھوری چھوڑ کر، بیاہے جاتا دیکھ چکی تھیں۔ انہوں نے شادی سے فرار کے لئے گھر سے فرار کی راہ اختیار کی۔
جسوندر کہتی ہیں کہ، ’میری بہن روبینہ، مجھے بتاتی تھی کہ وہ اپنی شادی میں کتنی ناخوش ہے۔ میں نے اسے کہا کہ تم میرے پاس آجاؤ، اس نے کہا نہیں۔ مجھے عزت کے بارے میں سوچنا ہے، وہ اپنے شوہر کو چھوڑ کر، طلاق لے کر، خاندان کی بے عزتی نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔تو ۔۔اس نے خود کو آگ لگا کر اپنی جان لے لی۔‘
ڈاکیومنٹری میں امریکہ میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کے حوالے سے ذرائع ابلاغ کی خبروں کے کچھ حصے بھی شامل ہیں۔
پروڈیوسر پاؤلا کویسکن کہتی ہیں کہ، ’ان موضوعات پر لوگ بات نہیں کرنا چاہتے۔ انہیں چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ سیاسی طور پر درست ہونے کی ایک بہت مفلوج کر دینے والی سوچ ہے ۔۔ صرف امریکہ میں نہیں، دنیا کے کئی اور ملکوں میں بھی، جہاں یہ سوچا جاتا ہے کہ شائد عورتوں پر تشدد کو کہیں نہ کہیں معاشرے یا مذہب کی حمایت حاصل ہے، اس لئے اس موضوع پر بات نہیں کرنی چاہئے ۔۔۔لیکن اسی وجہ سے ۔۔۔خاص طور پر۔۔۔۔ اس بارے میں ضرور بات کی جانی چاہئے۔‘
پاؤلہ کہتی ہیں کہ فلم کی تیاری میں دو سال کا عرصہ لگا۔ ہم نے بے شمار انٹرویوز کئے۔ ہم چاہتے تھے کہ ایسی عورتوں سے بات کریں، جن کا تعلق مختلف نسلی اور ثقافتی پس منظر سے ہو۔ مگر، جو اس وقت امریکہ، برطانیہ یا کینیڈا میں مقیم ہیں اور اپنی رائے کا اظہار بلا خوف و خطر کر سکتی ہیں۔ تاہم، ڈاکیومنٹری میں فہیمہ ہاشم کو بھی دیکھا جا سکتا ہے، جو کسی مغربی ملک میں نہیں رہتیں، بلکہ سوڈان میں عورتوں کے حقوق پر کام کرتی ہیں۔
پاؤلہ کہتی ہیں کہ، ’ہم نے فلم کی ایڈیٹنگ میں بھی غیر معمولی احتیاط سے کام لیا۔ ہم ایک متوازن فلم بنانا چاہتے تھے جس میں نظر آنے والی خواتین کی اپنی تہذیب و ثقافت کے لئے، فخر اور محبت بھی نظر آئے۔ لیکن، ان مسائل کو بھی سامنے لایا جائے۔ ان زیادتیوں کو بھی اجاگر کیا جائے جن کا حل تلاش کرنا ضروری ہے‘۔
پاؤلہ کے بقول،’آنر ڈائریز صرف ایک فلم نہیں ہے، یہ دنیا بھر میں لوگوں کو اس موضوع کے بارے میں مزید جاننے کی تحریک پیدا کرنے کی مہم کا آغاز ہے‘ ۔
ڈاکیومینٹری کا ترجمہ عربی، فارسی اور اردو میں بھی کیا گیا ہے، اور جلد ہی اسے پاکستان سمیت کئی ملکوں میں دکھایا جائے گا۔ پاؤلہ کہتی ہیں کہ ڈاکیومینٹری اگر اپنے دیکھنے والوں کو خاموشی توڑ کر، ایک دیانتدارانہ مکالمے پر بھی آمادہ کر سکی، تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔
ڈاکیومنٹری پر مسلمانوں کے بارے میں منفی تاثر پھیلانے کے الزامات کے جواب میں پروڈیوسر پاؤلہ کویسکن کہتی ہیں کہ یہ ڈاکیومنٹری خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی 30 تنظیموں کی مشترکہ کوشش ہے۔ اس کی تیاری کے لئے سرمایہ فراہم کرنے والے اداروں کے نام فلم کے اینڈ کریڈٹس میں درج ہیں۔
لیکن، خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی کچھ تنظیموں نے حال ہی میں اس موضوع کو اپنی ایک ڈاکیومینٹری فلم، آنر ڈائریز (Honor Diaries) کا موضوع بنایا ہے۔ فلم میں خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی9 ایسی خواتین سے ملاقات کروائی گئی ہے، جن کا تعلق پاکستان، بھارت، ایران، عراق اور سوڈان جیسے ملکوں سے ہے، جہاں غیرت کے نام پر ظلم کی کہانیاں زیادہ اجنبی نہیں۔
کینیڈا میں رہنے والی پاکستانی مصنفہ اور صحافی راحیل رضا نے، جن سے ’آنر ڈائریز‘ میں ملاقات کروائی گئی ہے، اردو وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، ’اسلام اور قرآن عورتوں پر جبر نہیں کرتا۔ لیکن، ہمارے اردگرد ہر طرف عورتوں کو ایک مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ امریکہ، کینیڈا اور یورپی ملکوں میں رہنے والے افغان اور پاکستانی گھرانوں میں آنر کلنگز یا غیرت کے نام پر قتل کے واقعات ہوچکے ہیں۔ اور لڑکیوں (یا بیٹیوں) سے سختی سے پیش آنا ایک عام بات ہے۔‘
غیرت کے نام پر جرائم کے بارے میں، راحیل نے ایک امریکی ڈاکیومینٹری کا حصہ بننا کیوں قبول کیا؟ اس کے جواب میں راحیل رضا کا کہنا تھا کہ، ’مغرب میں یہ تاثر ہے کہ مسلمان عورتیں جبر کا شکار ہیں۔ میں ایک صحافی تھی۔۔میں مغربی آڈئینس کو بتانا چاہتی تھی کہ جو آپ سمجھتے ہیں ویسا نہیں ہے۔ اس میں فرق بھی ہوتا ہے۔ لیکن، اس کے لئے پہلے مجھے خود سیکھنا تھا۔ میں پہلے خود یہ جواب چاہتی تھی کہ کیا اسلام عورتوں کو دبانا چاہتا ہے۔ میں جھوٹ نہیں بولنا چاہتی تھی۔ تو میں نے اسلام کے بارے میں پڑھنا شروع کیا۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ، ’عورتوں کے بارے میں کتابیں پڑھیں۔اپنی تاریخ پڑھی، اور میں نے محسوس کیا کہ جو غلط چیز ہے، وہ غلط ہے۔ اس کو کسی طرح گول مول کرکے، شریعت کے نام پر کسی بھی طرح درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘
راحیل رضا کہتی ہیں کہ، ’آنر ڈائریز‘ ہم عورتوں کی کہانی ہے۔ ہم عورتیں، جن میں سے کچھ مسلمان ہیں، اور کچھ نہیں، ہم سب نے بہت دل کھول کے ڈاکیومینٹری کے پروڈیوسرز سے بات کی اور انہوں نے اتنے حساس طریقے سے ڈاکیومنٹری تیار کی کہ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ایسا ہو سکتا ہے۔‘
ڈاکیومینٹری میں، جسوندر سنگھیرا اپنے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ کیسے 14 سال کی عمر میں ان کی ماں نے سکول سے واپس آنے پر انہیں ایک شخص کی تصویر دکھا کر بتایا تھا کہ وہ ان کی منگیتر ہیں۔ جسوندر برطانیہ کے ایک سکول میں پڑھنے والی اپنی سات بہنوں کو ایک ایک کرکے تعلیم ادھوری چھوڑ کر، بیاہے جاتا دیکھ چکی تھیں۔ انہوں نے شادی سے فرار کے لئے گھر سے فرار کی راہ اختیار کی۔
جسوندر کہتی ہیں کہ، ’میری بہن روبینہ، مجھے بتاتی تھی کہ وہ اپنی شادی میں کتنی ناخوش ہے۔ میں نے اسے کہا کہ تم میرے پاس آجاؤ، اس نے کہا نہیں۔ مجھے عزت کے بارے میں سوچنا ہے، وہ اپنے شوہر کو چھوڑ کر، طلاق لے کر، خاندان کی بے عزتی نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔تو ۔۔اس نے خود کو آگ لگا کر اپنی جان لے لی۔‘
پروڈیوسر پاؤلا کویسکن کہتی ہیں کہ، ’ان موضوعات پر لوگ بات نہیں کرنا چاہتے۔ انہیں چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ سیاسی طور پر درست ہونے کی ایک بہت مفلوج کر دینے والی سوچ ہے ۔۔ صرف امریکہ میں نہیں، دنیا کے کئی اور ملکوں میں بھی، جہاں یہ سوچا جاتا ہے کہ شائد عورتوں پر تشدد کو کہیں نہ کہیں معاشرے یا مذہب کی حمایت حاصل ہے، اس لئے اس موضوع پر بات نہیں کرنی چاہئے ۔۔۔لیکن اسی وجہ سے ۔۔۔خاص طور پر۔۔۔۔ اس بارے میں ضرور بات کی جانی چاہئے۔‘
پاؤلہ کہتی ہیں کہ فلم کی تیاری میں دو سال کا عرصہ لگا۔ ہم نے بے شمار انٹرویوز کئے۔ ہم چاہتے تھے کہ ایسی عورتوں سے بات کریں، جن کا تعلق مختلف نسلی اور ثقافتی پس منظر سے ہو۔ مگر، جو اس وقت امریکہ، برطانیہ یا کینیڈا میں مقیم ہیں اور اپنی رائے کا اظہار بلا خوف و خطر کر سکتی ہیں۔ تاہم، ڈاکیومنٹری میں فہیمہ ہاشم کو بھی دیکھا جا سکتا ہے، جو کسی مغربی ملک میں نہیں رہتیں، بلکہ سوڈان میں عورتوں کے حقوق پر کام کرتی ہیں۔
پاؤلہ کہتی ہیں کہ، ’ہم نے فلم کی ایڈیٹنگ میں بھی غیر معمولی احتیاط سے کام لیا۔ ہم ایک متوازن فلم بنانا چاہتے تھے جس میں نظر آنے والی خواتین کی اپنی تہذیب و ثقافت کے لئے، فخر اور محبت بھی نظر آئے۔ لیکن، ان مسائل کو بھی سامنے لایا جائے۔ ان زیادتیوں کو بھی اجاگر کیا جائے جن کا حل تلاش کرنا ضروری ہے‘۔
ڈاکیومینٹری کا ترجمہ عربی، فارسی اور اردو میں بھی کیا گیا ہے، اور جلد ہی اسے پاکستان سمیت کئی ملکوں میں دکھایا جائے گا۔ پاؤلہ کہتی ہیں کہ ڈاکیومینٹری اگر اپنے دیکھنے والوں کو خاموشی توڑ کر، ایک دیانتدارانہ مکالمے پر بھی آمادہ کر سکی، تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔
ڈاکیومنٹری پر مسلمانوں کے بارے میں منفی تاثر پھیلانے کے الزامات کے جواب میں پروڈیوسر پاؤلہ کویسکن کہتی ہیں کہ یہ ڈاکیومنٹری خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی 30 تنظیموں کی مشترکہ کوشش ہے۔ اس کی تیاری کے لئے سرمایہ فراہم کرنے والے اداروں کے نام فلم کے اینڈ کریڈٹس میں درج ہیں۔