کرونا وائرس اور فرینچ فرائز کا بظاہر کوئی واسطہ نہیں لیکن بیلجیم میں زیادہ سے زیادہ فرائز کھانے پر زور دیا جا رہا ہے۔
ساتھ ہی آلو کے کاشت کاروں اور فرائز تیار کرنے والے پروسیسنگ پلانٹس پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ کرونا وائرس کے سبب آلو کی طلب میں کمی کو دور کرنے کے لیے ہر ہفتے اضافی مقدار میں فرائز بنائیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق بیلجیم آلو کی منجمد مصنوعات یعنی فروزن فوڈ پروڈکٹس برآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔
یہاں سے سالانہ 53 لاکھ ٹن آلو کے چپس یا فرینچ فرائز سمیت آلو سے بنی دوسری مصنوعات دنیا کے 160 سے زیادہ ممالک کو برآمد کی جاتی ہیں۔
بیلجیم میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کیفے اور ریستوران بند ہیں جس کے نتیجے میں فرائز کی طلب میں 80 فی صد کمی ہو گئی ہے۔
بیلجیم میں آلو کی مصنوعات تیار کرنے والے صنعتی گروپ 'بیلگا پوم' کے سیکریٹری جنرل رومین کولز نے بتایا کہ فرائنگ یا تلی ہوئی مصنوعات ہماری روایت ہے۔ اس لیے ہم اپنے شہریوں سے کہتے ہیں کہ وہ اضافی مقدار میں فرائز کھائیں تاکہ آلو کو زیادہ سے زیادہ پروسیس کیا جا سکے اور اسے ضائع ہونے سے بچایا جاسکے۔
'بیلگا پوم' کے مطابق دنیا بھر میں فروزن فرائز کی طلب میں 40 فی صد سے زیادہ کمی واقع ہوئی ہے جب کہ اس کے ساتھ ساتھ پڑوسی ممالک یعنی فرانس، جرمنی اور نیدر لینڈز کو بھی بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔
رواں سال بیلجیم میں تقریبا سات لاکھ 50 ہزار ٹن آلو پروسیس نہیں ہو سکے جس کے سبب اسے خراب ہونے سے قبل کام میں لانے کی غرض سے فوری طور پر برآمد کردیا گیا۔ اس آلو کی فصل کی کچھ مقدار فوڈ بینک کے حوالے کر دی گئی جب کہ کچھ جانوروں کو چارے کے طور کھلادی گئی۔
رومین کولز نے بتایا کہ بیلجیم کے کاشت کاروں کو 12 کروڑ 50 لاکھ یورو کا نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ان یہ بھی کہنا تھا کہ عوام ہر ہفتے اضافی مقدار میں آلو کھائیں اور پکائیں۔ گھر میں کھانا پکانے کے ساتھ ساتھ فرائز فروخت کرنے والے اسٹینڈز پر بھی جائیں، جنہیں کھلے رہنے کی اجازت دی گئی ہے۔
بیلجیم کے شہریوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ فرائز کی شروعات ان کے ملک نے کی تھی لیکن پہلی جنگ عظیم کے دوران فرانسیسی بولنے اور سمجھنے والے حصے میں امریکی فوجیوں نے غلطی سے انہیں فرینچ فرائز کہا۔ اسی لیے اب دنیا میں اسے اسی نام سے جانا جاتا ہے۔