رواں سال جولائی کے مہینے میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں چکوٹھی سے کنٹرول لائن عبور کر کے بھارتی کشمیر جانے والے ایک ٹرک سے بھارتی حکام نے بڑی مقدار میں ہیروئن برآمد کر کے ٹرک ڈرائیور کو گرفتار اور ٹرک ضبط کر لیا تھا جسکی وجہ سے آر پار تجارت معطل ہو گئی تھی۔
متنازعہ کشمیر کے دو حصوں کے درمیان ہونے والی ہفتہ وار تجارت کی آڑ میں ہیروئن سمگلنگ کے واقعات میں حالیہ ہفتوں میں اضافہ دیکھنے میں آ یا ہے۔
انیس ستمبر کے روز ایک تاجر کی جانب سے بھارتی کشمیر بھیجے جانے والے ٹرک سے چکوٹھی ٹریڈ سینٹر پر بھاری مقدار میں ہیروئن برامد ہوئی جس پر تاجر ماجد ذرگر کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا لیکن اس تاجر کی گرفتاری کے بجائے اس کے لیے اجرت پر کام کر نے والے ٹرک ڈرائیوروں سمیت پانچ افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
گرفتار ہو نے والوں میں ٹرک کی سکیننگ کرانے والے اسرار میر بھی شامل ہیں جو اپنے خاندان کے واحد کفیل ہیں۔ ان کے والد بشیر احمد میر کا کہنا ہے کہ انکا بیٹا روزانہ اجرت پر کام کرنے والا مزدور ہے اسے کیا معلوم تھا کہ ٹرک میں کیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کنٹرول لائن کے آر پار تجارت اور سفر کی نگرانی کرنے والے ادارے کراس ایل او سی ٹریول اینڈ ٹریڈ اتھارتی کے ڈائریکٹر شاہد محمود نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ قانون کے مطابق جن سے منشیات برآمد ہوئیں انکو گرفتار کیا گیا ہے۔
آر پار تجارت اور سفر کے نگران ادارے ٹریول اینڈ ٹریڈ سنٹر چکوٹھی کے معاون آفیسر برائے کراس ایل او سی ٹریول اینڈ ٹریڈ طاہر کاظمی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پولیس جلد ہی اصل مجرم کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
کنٹرول لائن پار ہفتہ وار ٹرک سروس کے زریعے تجارت کرنے والے ایک تاجر اعجاز احمد میر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ منقسم کشمیر میں آباد جدا کشمیری خاندانوں کا آپس میں رابطہ بڑھانے کے لیے شروع کی گئی تجارت کے زریعے منشیات کی سمگلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باعث انہیں تشویش ہے۔ ایک اور تاجر راجہ قاصد کا کہنا ہے ٹرک سے ہیروئین برآمد ہونا آر پار تجارت کو بند کرنے کے لئے سازش بھی ہو سکتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری طرف بھارتی کشمیر کے شہر پونچھ اور پاکستانی کشمیر کے شہر راولاکوٹ کے درمیاں ایل او سی کے تیتری نوٹ کراسنگ پوائنٹ سے ہفتہ وار بس سروس اور تجارت پاکستان اور بھارت کی افواج کے درمیان گولہ باری کی وجہ سے گزشتہ دو ماہ سے بند ہے۔
خیال رہے کہ بھارت کی تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے کی طرف سے بھی ٹرک سروس کو بند کرنے کی سفارش کی گئی تھی لیکن بھارتی کشمیر کی وزیر اعلی محبوبہ مفتی کی طرف سے بھارتی حکومت کو ایسے کسی اقدام سے خبردار کیا گیا۔ انہوں نے کہا وہ مرکزی حکومت کو ایسا نہیں کرنے دیں گی۔
یاد رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان منقسم کشمیر میں مقامی کشمیری خاندانوں کو ایک دوسرے سے ملنے اور اعتماد سازی کے اقدام کے تحت سری نگر اور مظفرآباد کے درمیان 8 اپریل 2005 میں بس سروس کا آغاز کیا گیا۔ جبکہ 2008 میں کشمیریوں کے درمیان تجارتی روابط کے لئے ٹرک سروس کا آغاز کیا گیا۔