رابعہ نے عدالت میں خلع کا مقدمہ دائر کیا ہے۔ یہاں یہ سوال فطری طور پر اٹھتا ہے کہ اگر رابعہ طلاق یافتہ ہے تو پھرخلع کا مطالبہ کیوں کر رہی ہے؟
روئے زمین پرنازل ہونے والا پہلا آسمانی رشتہ مہذب معاشرے میں آج بھی ایک نازک ڈورسےبندھا ہوا بندھن معلوم ہوتا ہے جواکثر ازدواجی زندگی کی معمولی رنجشوں اور گھریلو تنازعات پر بکھر جاتا ہے۔
خلع کے بارے میں عام طور پرجو یک طرفہ تصویر پیش کی جاتی ہے اس تصویر کا دوسرا رخ چونکہ اتنا رنگین اور دلچسپ نہیں ہوتا، اسی لیے اکثر مضامین میں اس پہلو کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے اورخلع کو ماڈرن عورت کی آزادی کا پروانہ بتایا جاتا ہے۔ جبکہ خلع کا یہی پروانہ کسی بےبس عورت کو ظالم کے چُنگل سے نجات دلاتا ہے۔
گذشتہ برس وی او اے میں (مشرقی عورت کے مغربی مسائل) کےعنوان سے رابعہ کی سچی کہانی شائع ہوئی تھی جسے پردیس میں اس کے شوہر (برطانوی کزن) نے اپنی محبوبہ سے دوسری شادی رچانے کے لیے اسوقت طلاق دی تھی جب وہ دوسری بار حاملہ تھی۔ اسوقت وہ ایک ایسی مجبور اوربے سہارا لڑکی تھی جسے نا تو اس کےسسرال والے رکھنے پر تیار تھےاور ناہی وہ پردیس میں کسی کو جانتی تھی اسی لیے مجبورا رابعہ کو بریڈ فورڈ کے فلاحی ادارےمیں پناہ لینا پڑی تھی۔ وہ زندگی کے ایک تلخ تجربےسے گزر رہی تھی اور شاید وہ کمزور بھی پڑ جاتی کیونکہ، آصف اس پر ترس کھا کرایک بار پھرسے واپس سسرال لے جانے پرآمادہ ہو گیا ہے لیکن،ایک مذہبی اور سیدھی سادھی لڑکی کے لیے حلالہ کی سولی پر چڑھنے کے بعد گھر بسانا اتنا آسان نہیں ہے فیصلہ اب رابعہ کے ہاتھ میں ہے۔
یہ جاننے کے لیے کہ گذشتہ ایک برس میں رابعہ کے حالات میں کیا تبدیلیاں آئیں اور اب وہ کس حال میں ہے، میں نے رابعہ سے رابطہ کیا۔ گذشتہ روز رابعہ نے یہ کہہ کر مجھے حیران کر دیا کہ وہ ایک نئی زندگی کا آغاز کرنا چاہتی ہے۔ اس نے عدالت میں خلع کا مقدمہ دائر کیا ہے۔ یہاں یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ اگر رابعہ طلاق یافتہ ہے تو پھرخلع کا مطالبہ کیوں کررہی ہے؟
اس کی وجہ آصف کی کم ظرفی ہے جو رابعہ کو زبانی طلاق دینے کے بعد بھی تحریری طلاق دینے پرآمادہ نہیں ہے۔ بقول رابعہ، وہ چاہتا ہے کہ میں عمر بھرتنہا رہوں ،مجھے دھمکی دیتا ہے کہ جب بچے بڑے ہو جائیں گے تو وہ بھی مجھ سے دور ہو جائیں گے کیونکہ خلع کا مطالبہ ان کی ماں کی طرف سے کیا جارہا ہےجس میں ان کےباپ کی کوئی غلطی نہیں ہے'۔
رابعہ کی آواز میں بے حد اطمینان جھلک رہا تھا، ’اب میں ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں لوگوں سےبات کرلیتی ہوں۔ آج کل ڈرائیونگ سیکھ رہی ہوں بہت جلد میں اپنے پیروں پر کھڑی ہو جاؤں گی میں اپنی زندگی ایسے شخص کی یادوں میں گنوانا نہیں چاہتی ہوں جواپنی بیوی بچوں کے ساتھ بے فکری کی زندگی گزار رہا ہے'۔
میرے خلع لینے کے فیصلے پررشتہ دار اعتراض کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ طلاق یافتہ ہونے کا سچ مجھے لوگوں سے چھپا لینا چاہیے کیونکہ آج بھی میں قانونی طور پر آصف کی بیوی ہوں پھر میری ایک سات سال کی بیٹی بھی ہےاس لیے مجھے اپنی بیٹی کی خاطرتنہا زندگی گزار لینی چاہیے۔
’لیکن میرا جواب کچھ اور ہے میں نا تو جانور ہوں اورنا ہی غلام مجھے اپنی مزید تذلیل منظور نہیں ہےجہاں تک تنہائی کا سوال ہے تو زندگی میں اگر کوئی مخلص انسان مجھے میرے بچوں کے ساتھ اپنانے کے لیے تیار ہوا تو ایک بار ضرور سوچوں گی'۔
پاکستانی نژاد برطانوی فرحانہ کی کہانی بھی رابعہ سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ بریڈ فورڈ سے تعلق رکھنے والی فرحانہ کو شادی کے چند ماہ بعد ہی اپنے شوہر سے خلع لینی پڑی، ’میری شادی گھر والوں کی مرضی سے میرے کزن سے ہوئی تھی لیکن میرا شوہر بری صحبت اور نشے کا عادی نکلا اس کے ساتھ عمر بھر زندگی گزارنے کا خیال مجھے مار رہا تھا مجھےروز روز مرنا منظور نہیں تھا میں گھربسانا چاہتی تھی لیکن اسے اپنی قبر بنانا نہیں چاہتی تھی۔ جہاں تک میکے میں بیٹھنے کا تعلق ہے تو میرے رشتہ داروں نےاس شادی کو برقرار رکھنےکے لیےمجھ پر بہت دباؤ ڈالا لیکن میرے والدین میرا دکھ جانتے تھے انھوں نے میرا ساتھ دیا۔ مجھےخلع کا فیصلہ انتہائی مجبوری میں کرنا پڑا تھا‘۔
کیا عورت کا انتہائی مجبوری میں خلع کا مطالبہ کرنا ،شوہر کی نادانی کی سزا کے طورپرحلالہ کے نام پر قربان ہونے سے زیادہ ناپسندیدہ ہے؟
ایسے کئی سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ہم نےعالم ِدین حافظ محمد علی سے رجوع کیا۔
حافظ محمد علی شیفیلڈ کی اسلامی شریعہ کونسل کے رکن بھی ہیں انھوں نےبتایا کہ خلع کا مسئلہ ایک خالصتا شرعی مسئلہ ہے جسے اسلامی خاندانی قوانین کی روشنی میں حل کیا جاتا ہے۔ البتہ شریعت کی رُو سےخلع مانگنے والی عورت مہر کا تقاضا نہیں کر سکتی ہے۔
حافظ محمد علی نےخلع کے حوالے سے برطانیہ میں 'اسلامی شریعہ کونسل' کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے 'وی اواے' کو بتایا کہ، ’اگر شوہر تشدد پسند ہو یا آوارہ ہو یا پھر بیوی کو نان نفقہ نا دیتا ہو اور نا ہی بیوی بچوں کی خبر لیتا ہو تو ایسی خاتون کے پاس کیا راستہ رہ جاتا ہے سوائے اس کے کہ وہ شرعی طور پر اس مرد سےچھٹکارا حاصل کرلے‘۔
خلع کے معاملات عام طور پر عورت و شوہر کی آپسی رضامندی کے ساتھ طے کئے جاتے ہیں لیکن اگر کسی خاتون کا شوہر خلع دینے پر آمادہ نہیں ہوتا تو ایسی صورت میں بیوی کے انفرادی حالات و واقعات کے تناظر میں علماء کونسل بیوی کے حق میں فیصلہ سناتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ برطانیہ میں 'اسلامی شریعہ کونسل' کا قیام ایک ایسی صورتحال کے بعد وجود میں آیاجب دیکھا گیا کہ مسلم کمیونٹی میں عائلی معاملات خصوصا طلاق اور خلع کے معاملات عدالتوں کے چکر کاٹنے کے خوف سے بگڑتے جارہے ہیں اور پردیس میں شادی ہو کر آنے والی بہت سی مظلوم لڑکیاں ناصرف اپنے اوباش شوہروں کے ہاتھوں تشدد برداشت کررہی تھیں بلکہ بہت سے مردوں نے بیوی بچوں کو تنہا چھوڑ کر دوسری شادی کر لی تھی اور وہ کبھی واپس لوٹ آنے کی خواہش بھی نہیں رکھتے تھے۔ ایسے زیادہ تر واقعات میں قریبی رشتہ داری ہونےکی وجہ سے لڑکے بیویوں کوطلاق نہیں دینا چاہتے تھے۔
برطانیہ میں رہنے والے بہت سے شادی شدہ جوڑے ایسے تھےجن کی شادی سول رجسٹرڈ نہیں تھیں ان کے پاس سوائے کونسل کےذریعے علحیدگی حاصل کرنے کے کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں تھا جبکہ، سول ڈیورس لینے والی اکثرخواتین بھی شریعہ کونسل سے اسلامی طلاق حاصل کرنا چاہتی تھیں۔
جہاں تک شریعہ کونسل کے طریقہ کار کا تعلق ہے کونسل میں خلع کا مطالبہ کرنے والی خاتون تحریری درخواست جمع کراتی ہے جس میں وہ خلع لینے کی تمام تر وجوہات اور اپنے حالات کا تفصیلی ذکر کرتی ہے۔ لڑکی کی جانب سے یک طرفہ مقدمہ سننے کے بعد کونسل لڑکے اور اس کے خاندان کے بزرگوں سےرابطہ کرتی ہے اورمعاملے کو باہمی رضامندی سےسلجھانے یا پھر فریقین میں صلح کرانے کی کوشش کرتی ہے۔
کونسل لڑکےکو وقفے وقفے سے تین خط ارسال کرتی ہے تاکہ وہ بھی اپنا مقدمہ کونسل کے سامنے پیش کرے اگر لڑکا کسی بھی خط کا جواب نہیں دیتا ہے اور نا ہی اس دوران کونسل سے کسی قسم کا رابطہ کرتا ہے تو علماء کی متفقہ رائے سے لڑکی کے حق میں یک طرفہ فتوی یا خلع کی ڈگری جاری کر دی جاتی ہے جس سے لڑکی آزاد ہو جاتی ہےاب لڑکی کی شادی کی جاسکتی ہے تاہم شرعی خلع کو برطانیہ کی بہت سی عدالتوں میں تسلیم نہیں کیا جاتا ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر شریعہ کونسل کے حوالے سے یہ تاثر پیش کیا جاتا ہے کہ علماء خواتین کو جبراً شوہر سے رابطہ رکھنے یا پھر ایک ساتھ مزید وقت گزارنے پر مجبور کرتے ہیں لیکن شیفیلڈ کے علماء کونسل کی جانب سے کسی خاتون کو اسی کی مرضی کے خلاف کبھی زبردستی شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کیا گیا۔
شریعہ کونسل کا کام صرف خلع اور تنسیخ ِنکاح نہیں ہے بلکہ عائلی معاملات کے حوالے سے کونسل کی معاشرتی اور اخلاقی ذمہ داریاں بھی ہیں مثلا ایسے مقدمات جو معمولی تلخ کلامی اور ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کے باعث خلع تک پہنچ جاتے ہیں انہیں افہام و تفہیم کے ذریعے بچانا اور اصلاح کا وقت دینا بھی ہمارے فرائض میں شامل ہے لیکن بعض خواتین ذہنی طور پر خود کو تیار کرلیتی ہیں کہ انھیں ہر صورت میں خاوند سے چھٹکارا چاہیے ان کی خواہش ہوتی ہے کہ معاملہ کی چھان بین کئے بغیر جلد ازجلد انہیں خلع کی ڈگری جاری کر دی جائے ایسے لوگوں کو شریعہ کونسل کے طریقہِ کار سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
خلع کے بارے میں عام طور پرجو یک طرفہ تصویر پیش کی جاتی ہے اس تصویر کا دوسرا رخ چونکہ اتنا رنگین اور دلچسپ نہیں ہوتا، اسی لیے اکثر مضامین میں اس پہلو کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے اورخلع کو ماڈرن عورت کی آزادی کا پروانہ بتایا جاتا ہے۔ جبکہ خلع کا یہی پروانہ کسی بےبس عورت کو ظالم کے چُنگل سے نجات دلاتا ہے۔
گذشتہ برس وی او اے میں (مشرقی عورت کے مغربی مسائل) کےعنوان سے رابعہ کی سچی کہانی شائع ہوئی تھی جسے پردیس میں اس کے شوہر (برطانوی کزن) نے اپنی محبوبہ سے دوسری شادی رچانے کے لیے اسوقت طلاق دی تھی جب وہ دوسری بار حاملہ تھی۔ اسوقت وہ ایک ایسی مجبور اوربے سہارا لڑکی تھی جسے نا تو اس کےسسرال والے رکھنے پر تیار تھےاور ناہی وہ پردیس میں کسی کو جانتی تھی اسی لیے مجبورا رابعہ کو بریڈ فورڈ کے فلاحی ادارےمیں پناہ لینا پڑی تھی۔ وہ زندگی کے ایک تلخ تجربےسے گزر رہی تھی اور شاید وہ کمزور بھی پڑ جاتی کیونکہ، آصف اس پر ترس کھا کرایک بار پھرسے واپس سسرال لے جانے پرآمادہ ہو گیا ہے لیکن،ایک مذہبی اور سیدھی سادھی لڑکی کے لیے حلالہ کی سولی پر چڑھنے کے بعد گھر بسانا اتنا آسان نہیں ہے فیصلہ اب رابعہ کے ہاتھ میں ہے۔
یہ جاننے کے لیے کہ گذشتہ ایک برس میں رابعہ کے حالات میں کیا تبدیلیاں آئیں اور اب وہ کس حال میں ہے، میں نے رابعہ سے رابطہ کیا۔ گذشتہ روز رابعہ نے یہ کہہ کر مجھے حیران کر دیا کہ وہ ایک نئی زندگی کا آغاز کرنا چاہتی ہے۔ اس نے عدالت میں خلع کا مقدمہ دائر کیا ہے۔ یہاں یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ اگر رابعہ طلاق یافتہ ہے تو پھرخلع کا مطالبہ کیوں کررہی ہے؟
اس کی وجہ آصف کی کم ظرفی ہے جو رابعہ کو زبانی طلاق دینے کے بعد بھی تحریری طلاق دینے پرآمادہ نہیں ہے۔ بقول رابعہ، وہ چاہتا ہے کہ میں عمر بھرتنہا رہوں ،مجھے دھمکی دیتا ہے کہ جب بچے بڑے ہو جائیں گے تو وہ بھی مجھ سے دور ہو جائیں گے کیونکہ خلع کا مطالبہ ان کی ماں کی طرف سے کیا جارہا ہےجس میں ان کےباپ کی کوئی غلطی نہیں ہے'۔
رابعہ کی آواز میں بے حد اطمینان جھلک رہا تھا، ’اب میں ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں لوگوں سےبات کرلیتی ہوں۔ آج کل ڈرائیونگ سیکھ رہی ہوں بہت جلد میں اپنے پیروں پر کھڑی ہو جاؤں گی میں اپنی زندگی ایسے شخص کی یادوں میں گنوانا نہیں چاہتی ہوں جواپنی بیوی بچوں کے ساتھ بے فکری کی زندگی گزار رہا ہے'۔
میرے خلع لینے کے فیصلے پررشتہ دار اعتراض کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ طلاق یافتہ ہونے کا سچ مجھے لوگوں سے چھپا لینا چاہیے کیونکہ آج بھی میں قانونی طور پر آصف کی بیوی ہوں پھر میری ایک سات سال کی بیٹی بھی ہےاس لیے مجھے اپنی بیٹی کی خاطرتنہا زندگی گزار لینی چاہیے۔
’لیکن میرا جواب کچھ اور ہے میں نا تو جانور ہوں اورنا ہی غلام مجھے اپنی مزید تذلیل منظور نہیں ہےجہاں تک تنہائی کا سوال ہے تو زندگی میں اگر کوئی مخلص انسان مجھے میرے بچوں کے ساتھ اپنانے کے لیے تیار ہوا تو ایک بار ضرور سوچوں گی'۔
پاکستانی نژاد برطانوی فرحانہ کی کہانی بھی رابعہ سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ بریڈ فورڈ سے تعلق رکھنے والی فرحانہ کو شادی کے چند ماہ بعد ہی اپنے شوہر سے خلع لینی پڑی، ’میری شادی گھر والوں کی مرضی سے میرے کزن سے ہوئی تھی لیکن میرا شوہر بری صحبت اور نشے کا عادی نکلا اس کے ساتھ عمر بھر زندگی گزارنے کا خیال مجھے مار رہا تھا مجھےروز روز مرنا منظور نہیں تھا میں گھربسانا چاہتی تھی لیکن اسے اپنی قبر بنانا نہیں چاہتی تھی۔ جہاں تک میکے میں بیٹھنے کا تعلق ہے تو میرے رشتہ داروں نےاس شادی کو برقرار رکھنےکے لیےمجھ پر بہت دباؤ ڈالا لیکن میرے والدین میرا دکھ جانتے تھے انھوں نے میرا ساتھ دیا۔ مجھےخلع کا فیصلہ انتہائی مجبوری میں کرنا پڑا تھا‘۔
کیا عورت کا انتہائی مجبوری میں خلع کا مطالبہ کرنا ،شوہر کی نادانی کی سزا کے طورپرحلالہ کے نام پر قربان ہونے سے زیادہ ناپسندیدہ ہے؟
ایسے کئی سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ہم نےعالم ِدین حافظ محمد علی سے رجوع کیا۔
حافظ محمد علی شیفیلڈ کی اسلامی شریعہ کونسل کے رکن بھی ہیں انھوں نےبتایا کہ خلع کا مسئلہ ایک خالصتا شرعی مسئلہ ہے جسے اسلامی خاندانی قوانین کی روشنی میں حل کیا جاتا ہے۔ البتہ شریعت کی رُو سےخلع مانگنے والی عورت مہر کا تقاضا نہیں کر سکتی ہے۔
حافظ محمد علی نےخلع کے حوالے سے برطانیہ میں 'اسلامی شریعہ کونسل' کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے 'وی اواے' کو بتایا کہ، ’اگر شوہر تشدد پسند ہو یا آوارہ ہو یا پھر بیوی کو نان نفقہ نا دیتا ہو اور نا ہی بیوی بچوں کی خبر لیتا ہو تو ایسی خاتون کے پاس کیا راستہ رہ جاتا ہے سوائے اس کے کہ وہ شرعی طور پر اس مرد سےچھٹکارا حاصل کرلے‘۔
خلع کے معاملات عام طور پر عورت و شوہر کی آپسی رضامندی کے ساتھ طے کئے جاتے ہیں لیکن اگر کسی خاتون کا شوہر خلع دینے پر آمادہ نہیں ہوتا تو ایسی صورت میں بیوی کے انفرادی حالات و واقعات کے تناظر میں علماء کونسل بیوی کے حق میں فیصلہ سناتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ برطانیہ میں 'اسلامی شریعہ کونسل' کا قیام ایک ایسی صورتحال کے بعد وجود میں آیاجب دیکھا گیا کہ مسلم کمیونٹی میں عائلی معاملات خصوصا طلاق اور خلع کے معاملات عدالتوں کے چکر کاٹنے کے خوف سے بگڑتے جارہے ہیں اور پردیس میں شادی ہو کر آنے والی بہت سی مظلوم لڑکیاں ناصرف اپنے اوباش شوہروں کے ہاتھوں تشدد برداشت کررہی تھیں بلکہ بہت سے مردوں نے بیوی بچوں کو تنہا چھوڑ کر دوسری شادی کر لی تھی اور وہ کبھی واپس لوٹ آنے کی خواہش بھی نہیں رکھتے تھے۔ ایسے زیادہ تر واقعات میں قریبی رشتہ داری ہونےکی وجہ سے لڑکے بیویوں کوطلاق نہیں دینا چاہتے تھے۔
برطانیہ میں رہنے والے بہت سے شادی شدہ جوڑے ایسے تھےجن کی شادی سول رجسٹرڈ نہیں تھیں ان کے پاس سوائے کونسل کےذریعے علحیدگی حاصل کرنے کے کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں تھا جبکہ، سول ڈیورس لینے والی اکثرخواتین بھی شریعہ کونسل سے اسلامی طلاق حاصل کرنا چاہتی تھیں۔
جہاں تک شریعہ کونسل کے طریقہ کار کا تعلق ہے کونسل میں خلع کا مطالبہ کرنے والی خاتون تحریری درخواست جمع کراتی ہے جس میں وہ خلع لینے کی تمام تر وجوہات اور اپنے حالات کا تفصیلی ذکر کرتی ہے۔ لڑکی کی جانب سے یک طرفہ مقدمہ سننے کے بعد کونسل لڑکے اور اس کے خاندان کے بزرگوں سےرابطہ کرتی ہے اورمعاملے کو باہمی رضامندی سےسلجھانے یا پھر فریقین میں صلح کرانے کی کوشش کرتی ہے۔
کونسل لڑکےکو وقفے وقفے سے تین خط ارسال کرتی ہے تاکہ وہ بھی اپنا مقدمہ کونسل کے سامنے پیش کرے اگر لڑکا کسی بھی خط کا جواب نہیں دیتا ہے اور نا ہی اس دوران کونسل سے کسی قسم کا رابطہ کرتا ہے تو علماء کی متفقہ رائے سے لڑکی کے حق میں یک طرفہ فتوی یا خلع کی ڈگری جاری کر دی جاتی ہے جس سے لڑکی آزاد ہو جاتی ہےاب لڑکی کی شادی کی جاسکتی ہے تاہم شرعی خلع کو برطانیہ کی بہت سی عدالتوں میں تسلیم نہیں کیا جاتا ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر شریعہ کونسل کے حوالے سے یہ تاثر پیش کیا جاتا ہے کہ علماء خواتین کو جبراً شوہر سے رابطہ رکھنے یا پھر ایک ساتھ مزید وقت گزارنے پر مجبور کرتے ہیں لیکن شیفیلڈ کے علماء کونسل کی جانب سے کسی خاتون کو اسی کی مرضی کے خلاف کبھی زبردستی شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کیا گیا۔
شریعہ کونسل کا کام صرف خلع اور تنسیخ ِنکاح نہیں ہے بلکہ عائلی معاملات کے حوالے سے کونسل کی معاشرتی اور اخلاقی ذمہ داریاں بھی ہیں مثلا ایسے مقدمات جو معمولی تلخ کلامی اور ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کے باعث خلع تک پہنچ جاتے ہیں انہیں افہام و تفہیم کے ذریعے بچانا اور اصلاح کا وقت دینا بھی ہمارے فرائض میں شامل ہے لیکن بعض خواتین ذہنی طور پر خود کو تیار کرلیتی ہیں کہ انھیں ہر صورت میں خاوند سے چھٹکارا چاہیے ان کی خواہش ہوتی ہے کہ معاملہ کی چھان بین کئے بغیر جلد ازجلد انہیں خلع کی ڈگری جاری کر دی جائے ایسے لوگوں کو شریعہ کونسل کے طریقہِ کار سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔