پاکستان کے صوبے سندھ میں گزشتہ ایک ماہ سے جاری طوفانی بارشوں سے ہونے والی تباہی کے بعد سندھ کے 30 میں 22 اضلاع کو مکمل اور ایک کو جزوی طور پر آفت زدہ قرار دیا گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ صوبے بھر میں معمول سے 400 سے 500 فی صد زائد بارشیں ہوئی ہے جس کی وجہ سے معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ مسلسل بارشوں کی وجہ سے ہزاروں دیہات اور قصبے زیرِ آب آچکے ہیں جب کہ نوشہرو فیزور، سانگھڑ، شہداد پور اور میرپور خاص میں صورتِ حال خاصی تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔
حکومتِ سندھ کا کہنا ہے کہ اب تک کے محتاط اندازوں اور تخمینوں کے مطابق صوبے بھر میں 40 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوچکا ہے جب کہ65 بچوں سمیت 150 سے زائد افراد سیلابی ریلے یا بارشوں کی وجہ سے ہلاک ہوچکے ہیں۔صوبے بھر میں حالیہ بارشوں سے ساڑھے چار لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔
محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ پڈعیدن میں ایک ہی روز میں ریکارڈ 355 ملی میٹر بارش ہوئی ہے جب کہ 20 اگست کو موئن جو دڑو میں 125 اور خیرپور میں 79 ملی میٹر تک بارش ریکارڈ کی گئی ہے۔
اٹھارہ اگست کو سانگھڑ میں 319 ملی میٹر، عمرکوٹ میں 172، شہید بے نظیر آباد میں 162، قمبر شہداد کوٹ میں 158، ٹنڈو الہ یار میں 150، حیدر آباد میں 113، لاڑکانہ میں 127، نوشہروفیروز میں 112 اور تھرپارکر میں 105 ملی میٹر بارشیں ریکارڈ کی گئیں۔
سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں گزشتہ ہفتے مجموعی طور پر 286 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ حیدرآباد ڈویژن میں شدید بارشوں سے تین ہزار ایکڑ سے زائد رقبے پر فصلیں تباہ ہوگئیں جب کہ 150 سے زائد مویشی بھی بارشوں میں ہلاک ہوئے ہیں۔
SEE ALSO: رواں ماہ مون سون میں 109 فی صد اضافی بارش، دو ماہ میں ساڑھے چھ سو امواتحیدرآباد کے علاوہ ٹھٹھہ، بدین، سجاول، ٹنڈو محمد خان اور ٹنڈو الہ یار میں بھی بارشوں سے شدید تباہی ہوئی ہے اور لوگوں کے گھر تباہ ہوگئے ہیں۔ میرپورخاص میں 18 اور 19 اگست کومسلسل 36 گھنٹے بارش ہوئی جس کے باعث میرپور خاص کے علاوہ کوٹ غلام محمد اور اس کے ملحقہ علاقے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
دوسری جانب سکھر اور خیرپور کے اضلاع میں بھی موسلادھار بارشوں سے کھجور اور کپاس کی فصلیں بہہ گئیں جب کہ یہاں جمعرات سے تعلیمی ادارے بند ہیں۔ گزشتہ ہفتے خیرپور کی تحصیلوں کنگری میں 214, گمبٹ میں 218 ، سوبھوڈیرو میں 301, کوٹ ڈیجی میں 292.5، نارا میں 115، میرواھ میں 356 اور فیض گنج میں 417 ملی میٹر بارشیں ریکارڈ کی گئیں۔
حکام نے خبردار کیا ہے کہ پیر سے سندھ کے بالائی علاقوں میں مزید بارشوں کا نیا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے جس کے باعث سکھر، دادو، لاڑکانہ، جیکب آباد اور شہید بے نظیر آباد میں گرج چمک کے ساتھ موسلادھار بارشیں ہو سکتی ہیں۔ جب کہ منگل سے صوبے بھر میں بارشوں کا نیا سلسلہ آنے کی پیش گوئی کی جارہی ہے۔
حکام کے مطابق 16 اگست سے 21 اگست تک ہونے والی بارشوں سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں قاضی آبا د، دوڑ، سکرنڈ اور سانگھڑ شامل ہیں جہاں ایک لاکھ 35 ہزار سے زائد لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔ جب کہ 12 ہزار کے قریب لوگوں کو صوبائی حکومت کے ریلیف کیمپس میں رکھا گیا ہے۔
شدید بارشوں کے باعث سانگھڑ میں 90 فی صد فصلیں تباہ ہو چکی ہیں جب کہ بدین میں لیفٹ بینک آؤٹ ڈرین (ایل بی او ڈی) میں کئی مقامات پر شگاف پڑ گئے جس سے فصلیں اور گھر تباہ ہوگئے۔
حکام کے مطابق بدین میں اب تک کے اندازے کے مطابق 19 ہزار سے زائد مکان بارشوں میں مکمل تباہ یا جزوی طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ ٹھٹھہ میں بھی 600 ملی میٹر سے زائد بارشوں کے باعث ہزاروں ایکڑ پر فصلیں تباہ اور گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے صوبے کے مختلف اضلاع کا دورہ کرتے ہوئے نقصانات کا جائزہ لیا اور کہا کہ اس مشکل گھڑی میں حکومت عوامی تکالیف کو دور کرنے کے لیے اقدامات کررہی ہے۔
SEE ALSO: پاکستان میں مون سون میں 550 اموات، بلوچستان اور سندھ میں مزید بارش کی پیش گوئیان کا کہنا تھا کہ شدید بارشوں سے انفراسٹرکچر کو بے حد نقصان پہنچا ہے جس میں سڑکیں، آب پاشی کا نیٹ ورک، عمارتیں اور پبلک ہیلتھ کی مختلف اسکیمز شامل ہیں، ان نقصانات کے تخمینے کے لیے محکمہ آب پاشی، ورکس اینڈ سروسز، پبلک ہیلتھ، محکمہ بلدیات اور دیگر محکموں کو ہدایت دے دی گئی ہیں۔
مراد علی شاہ نے مزید کہا کہ صوبے کے شہروں میں 30 سے 40 ملی میٹر بارش ہی کی نکاسی کا انتظام ہے لیکن جب بارشیں 300 ملی میٹر یا اس سے زائد ہوں گی تو نکاسی میں وقت لگے گا۔ انہوں نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے بھی بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی مدد کے لیے صوبائی حکومت کو ہر ممکن مدد کا یقین دلایا ہے۔
صوبائی حکام کے ایک اندازے کے مطابق متاثرہ افراد کی ان کے گھروں سمیت بحالی اور ان کی تباہ شدہ فصلوں، دکانوں کے نقصانات کے معاوضے اور تباہ شدہ سڑکوں کے نیٹ ورک، پلوں اور سیوریج سسٹم کی مرمت پر تقریباً 40 ارب روپے لاگت آئے گی۔ جب کہ کئی علاقوں میں بجلی معطل ہونے یا پمپنگ مشینیں خراب ہونے کے باعث پانی کی نکاسی کا کام شروع ہی نہیں ہوسکا ہے۔
سکھر، خیرپور پور اور نوشہرو فیروز کے شہری علاقوں میں بھی کئی کئی فٹ پانی کھڑے ہونے کے باعث لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
سندھ کے 22 اضلاع آفت زدہ قرار
حکومتِ سندھ کے ریلیف ڈیپارٹمنٹ نے صوبے کے 30 میں سے 22 اضلاع کو مکمل طور پر آفت زدہ قرار دے دیا ہے۔ ضلع تھرپارکر اور کراچی کے چھ اضلاع کو چھوڑ کر تمام صوبے کو آفت زدہ قراردینے کا باقاعدہ نوٹی فیکیشن جاری کردیا گیا ہے۔
کراچی کے ضلع ملیر کے دو دیہوں کُنڈ جھنگ اور گڈاپ کو بھی آفت زدہ قرار دیا گیا ہے۔
صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے ) کا کہنا ہے کہ صوبے کے زیادہ متاثرہ علاقوں میں اب تک ایک لاکھ خیمے اور ریلیف کیمپس میں مقیم لوگوں کے لیے کھانے اور دیگر ضروری اشیا فراہم کی ہیں۔
صوبائی اور وفاقی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے اب تک 57 ریلیف کیمپس قائم کیے ہیں جب کہ ڈی واٹرنگ پمپس، اور نو ہزار سے زائد راشن بیگس تقسیم کیے جاچکے ہیں۔