تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دہشتگردی اور غربت نہیں بلکہ جوہری خطرات، روبوٹس کا ٹیکنالوجی پر کنٹرول (یعنی مصنوعی ذہانت) اور موسمیاتی تغیر کرہ ارض کے بڑے مسائل ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ عالمی قیادت کو چاہیے کہ جس طرح اس دنیا سے پولیو کے خاتمے کے لیے وہ ایک نکتے پر جمع ہوئی، اسی طرح ان گھمبیر مسائل پر بھی اتفاق رائے پیدا کرے اور ’گلوبل ویلج‘ کو رہنے کے لیے محفوظ جگہ بنائے اور دولت کی مساوی تقسیم کے ذریعے ایک عالمی سماج تشکیل دے۔
’وائس آف امریکہ‘ اردو سروس سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان میں قومی اور بین الاقو امی امور کے تجزیہ کار اور کالم نگار رانا محبوب اختر نے کہا ہےکہ کرہ ارض کا سب سے بڑا مسئلہ دہشتگردی یا غربت نہیں۔
بقول ان کے، ’’آج کی دنیا کو سب سے بڑا خطرہ ایٹمی جنگ کا ہے، دوسرا خطرہ موسمیاتی آفات کے امکانات کا ہے، جس کو دنیا کے بڑے ملک بالخصوص امریکہ، صدر ٹرمپ کے آنے کے بعد نظرانداز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور تیسرا سب سے بڑا خطرہ ٹیکنالوجی میں روبوٹس کے ذریعے ممکنہ خلل ہے یعنی ہماری اس دنیا کا کنٹرول روبوٹس کے ہاتھ میں جا سکتا ہے‘‘۔
ممتاز سکالر پروفیسر خورشید ندیم کہتے ہیں کہ دنیا ’نیشن سٹیٹ‘ سے ’گلوبلائزیشن‘ یعنی قومیت پسندی سے عالمگیریت کی طرف گئی ہے۔ تہذیبوں کے تصادم کا خطرہ نہیں، لیکن دولت کی ناجائز تقسیم مسئلہ بن رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’’دولت کی غیر مساوی تقسیم ایسا وائرس ہے جو ہماری سماجی زندگی کو برباد کر دیتا ہے۔ طاقتور اور کمزور کے درمیان کشمکش کو بھی اگر کسی نظم کے تحت نہ لایا جائے تو یہ عنصر بھی سطح زمین کو فساد سے بھر دیتا ہے‘‘۔
امریکہ میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر حسن عباس کے بقول، ’’سماجی ناانصافی اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے‘‘۔
ان کے الفاظ میں ’’سب سے بڑا مسئلہ ایک خاص نظریے سے تمام بڑے مسائل کی جڑ ہے۔ اور وہ ہے دنیا میں انصاف کا مسئلہ۔ Have and Have Not کا مسئلہ ہے۔ یعنی کچھ لوگوں کے پاس بہت کچھ ہے اور کچھ کے پاس کچھ نہیں ہے۔ یہ بہت فرق پیدا کرتا ہے‘‘۔
تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ غربت، بیماریاں اور دہشتگردی بھی بڑے مسائل ہیں۔ لیکن، دنیا کو ان مسائل کے سبب خاتمے کا خطرہ نہیں۔
ڈاکٹر حسن عباس تجویز کرتے ہیں کہ ہر وقت قومی مفاد کی نگہبانی مسئلے کا حل نہیں، مسئلے کا حصہ ہے۔ یہ وقت کسی نئے بین الاقوامی ضابطے کی تشکیل کا متقاضی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’’بین الاقوامی تعلقات میں ہم پہلا سبق یہ پڑھاتے ہیں کہ ہر ریاست اپنے مفادات کے پیچھے جانے میں حق بجانب ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر دنیا کے دو سو پچاس کے لگ بھگ ملک آپس میں لڑتے ہی رہیں گے۔ ایک عالمی نظام انصاف ہو جو آئین اور قانون کے تابع ہو۔ ایک قانون تو ملکی ہوتا ہے۔ یہاں ایسا قانون چاہیے جو گلوبل انٹرنیشنل آرڈر کے تحت ہو۔ اس کی فی الوقت کمی ہے جس کے سبب یہ تمام مسائل دیکھے جا رہے ہیں‘‘۔
پروفیسر خورشید ندیم کہتے ہیں کہ دنیا نے جس طرح پولیو کے خلاف متحد ہو کر اس مرض کے وائرس کا پورے کرہ ارض سے تقریباً خاتمہ کیا، اسی طرح باقی مسائل پر بھی متفق ہونا چاہیے، تاکہ ایک عالمی سماج تشکیل پا سکے۔
بقول ان کے، ’’یہ جو حساسیت پولیو کے وائرس کے بارے میں ہے، سماجی مسائل پر حساسیت دنیا میں ابھی تک پیدا نہیں ہو سکی ہے۔ گلوبلائزیشن کے بعد اس جانب پہلے قدم کا ابھی تک انتظار ہے۔ انسانی سماج کو آپ انسانی سماج سمجھیں۔ وہ امریکہ میں ہے، برطانیہ میں ہے، مشرق وسطیٰ میں ہے، چین میں ہے یا کہیں بھی۔ انسانیت کی مشترکہ میراث کے طور پر چیزوں کو دیکھیں۔ اس کے دکھ کو بھی اشتراک کی نظر سے دیکھیں۔ اس کے سکھ کو بھی اشتراک کی نظر سے دیکھیں۔ یہ وہ نکتہ ہے جس کی تفہیم بہت ضروری ہے۔ اور شاید اس کے بعد ایک بہتر عالمی سماج کی تشکیل ممکن ہے۔‘‘
رانا محبوب اختر کے بقول، ’’نئی دنیا کے نئے مسائل کے حل کے لیے نئے بیانیے اور جوان قیادت کی ضرورت ہے۔ امریکہ جیسا جارحانہ انداز نہیں، نیوزی لینڈ جیسی اخلاقی قوت مسائل کا حل دے سکتی ہے‘‘۔
انھوں نے کہا کہ ’’ان مسائل سے نمٹنے کے لیے نیا بیانیہ جنم لے رہا ہے۔ اتفاق سے یہ بیانیہ چھوٹے ملکوں سے آ رہا ہے۔ جیسنڈا آڈرن نے کیسے اخلاقی طور پر دنیا کی قیادت سبھال لی اور دنیا کو نیا بیانیہ دیا‘‘۔
ان کے الفاظ میں، ’’اسی طرح، کینیڈا کے راہنما جسٹن ٹروڈو کا بیانیہ جس نے جنگوں سے تباہ حال ملکوں کے شہریوں کے لیے اپنے ملک کے دروازے اس وقت کھول دیے جب صدر ٹرمپ اور باقی دنیا ان پر یہ دروازے بند کر رہی تھی۔ ٹروڈو نے قومیت پسندی کی بجائے تنوع کو پسند کیا اور یہ رنگا رنگی مستقبل کی دنیا ہے۔ جو اس کو قبول نہیں کرے گا، مٹ جائے گا‘‘۔