افغان صدراشرٖف کے خصوصی نمائندے عمر داؤد زئی نے کہا ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن صرف افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ رست بات چیت سے ہی ممکن ہے اور ان کے بقول افغان طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ براہ راست بات چیت پر صرف پاکستان ہی قائل کر سکتا ہے۔
عمر داود زئی نے یہ بات جمعرات کو اسلام آباد میں وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
افغان صدر کے خصوصی نمائندے افغان ہائی پیس کونسل کے سیکرٹری عمر داؤد زئی افغان امن و مصالحت کے لیے جاری کوششوں پر تبادلہ خیال کرنے کے پاکستان کے دورے پر ہیں۔
اس دوران انہو ں نے وزیر خارجہ اور پاکستان کی بعض مذہبی و سیاسی جماعتوں کے قائدین سے ملاقات کی ہے جس میں انہوں نے افغان تنازع کے حل سے متعلق تازہ کوششوں پر تبادلہ کیا ہے۔
افغان طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ براہ راست بات چیت پر آمادہ کرنے کے لیے پاکستان کے کردار سے متعلق جب 'وی او اے' نے سوال کیا تو داؤد زئی نے کہا کہ پاکستان کا کرادر نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
انہوں نے کہا " پاکستان سے ہماری بنیادی توقعات بھی یہی ہیں کہ وہ افغانوں کے مابین بات چیت میں معاونت کرے تاکہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت کا راستہ ہموار ہو سکے۔"
داؤد زئی نے کہا کہ ان کے خیال میں پاکستان طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے آمادہ کرنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال بھی کر رہا ہے
داؤد زئی کے بقول پاکستان طالبان سے بات کر رہا ہے۔ یہ اُن کے مفاد میں ہے۔ یہ افغانستان اور خطے کے استحکام کے مفاد میں ہے۔ " پاکستان طالبان کو باور کروا رہا ہے کہ اگر وہ افغان حکومت کے ساتھ ایک میز پر آمنے سامنے نہیں بیٹھتے تو پھر افغانستان میں امن نہیں ہو سکتا۔ "
داؤد زئی نے کہا کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔
ان کے بقول"یقیناً طالبان نے بھی یہی سیکھا ہو گا کہ کوئی فوجی حل نہیں ہے اور آخرکار مسئلے کا سیاسی حل ہی ممکن ہے۔ میرے خیال میں سیاسی حل کے لیے یہ سال (2019ء)بہت موثر ہے۔"
پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ وہ افغانستان میں امن و مصالحت کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے لیکن ماضی کی نسبت طالبان پر اسلام آباد کا اثر و رسوخ کم ہو گیا ہے۔
تاہم داؤد زئی کا کہنا ہے " افغان طالبان کی قیادت پر پاکستان کا خاصا اثر و رسوخ ہے کیونکہ طالبان قیادت کی اکثریت کئی برسوں سے پاکستان میں موجود تھی اور اب بھی ہے۔ اور اگر کوئی ایک ملک طالبان قیادت سے براہ راست رابطہ کر سکتا ہے تو وہ پاکستان ہے۔ ہمیں پاکستان کے اثر و رسوخ کا اندازہ ہے اور ہم توقع کرتے ہیں کہ وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے آمادہ کریں گے۔"
داؤد زئی ایک ایسے وقت پاکستان کے دورے پر ہیں جب امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد بھی خطے کا دورہ کر رہے ہیں جس دوران وہ بھارت، چین افغانستان اور پاکستان بھی جائیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان دوروں کا مقصد افغان طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ براہ راست بات چیت پر راضی کرنا ہے لیکن تاحال طالبان افغان حکومت سے براہ راست بات چیت سے انکار کرتے آرہے ہیں۔
گزشتہ ماہ متحدہ عرب امارات کے دارلحکومت ابوظہبی میں خلیل زاد کی قیادت میں امریکی وفد نے طالبان کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کیے تھے جن میں افغانستان میں رواں سال عارضی جنگ بندی اور افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کی تجاویز پر غور ہوا۔
پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت پاکستان کی کوششوں سے ہی ممکن ہوئی ہے۔