نئی دہلی میں تعینات سولہ ملکوں کے سفارت کاروں کا ایک وفد بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی صورتِ حال کا بہ نفسِ نفیس جائزہ لینے کے لیے جمعرات کو سرینگر پہنچا۔ وفد نے سرینگر پہنچتے ہی شہر کے بادامی باغ کنٹونمنٹ ایریا میں بھارتی فوج کے اعلیٰ افسروں سے بریفنگ لی۔
عہدیداروں نے بتایا کہ بھارتی فوج کے ان افسران نے، جن میں کور کمانڈر لفٹننٹ جنرل کنول جیت سنگھ ڈھلون بھی شامل تھے، سفارت کاروں کو جموں و کشمیر کے اندر پائی جانے والی مجموعی حفاظتی صورتِ حال، عسکریت پسندوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں اور متنازع ریاست کو تقسیم کرنے والی حد بندی لائین پر مبینہ طور پر پیش آنے والی در اندازی اور پاکستانی فوج کی طرف سے کی جانے والی مبینہ فائرنگ کے واقعات کے بارے میں آگہی دی گئی۔
بعد میں سفارت کاروں کے وفد نے سرینگر کے ایک ہوٹل میں ریاستی قانون سازیہ کے سابق ممبران کے ایک وفد، حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقامی کارکنوں اور تاجروں کے نمائندوں، صحافیوں کے ایک گروپ اور چند دوسرے غیر معروف افراد سے ملاقاتیں کیں، جیسا کہ سرکاری ذرائع سے پتا چلا ہے کہ سفارت کاروں سے ملنے والے ان افراد کا انتخاب مقامی انتظامیہ نے بھارتی وزارتِ داخلہ کے مشورے سے کیا ہے۔ عام لوگوں کو سفارت کاروں سے ملنے کی اجازت تھی اور نہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو ان سے ملنے دیا گیا۔
سفارت کاروں کا یہ وفد جمعرات کی شام کو جموں و کشمیر کے سرمائی دارالحکومت جموں پہنچا جہاں وفاق کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر کے لیفٹننٹ گورنر گریش چندرا مرمو ان کے اعزاز میں عشائیہ دے رہے ہیں۔ وفد جمعے کو دورے کے دوسرے اور آخری دن حکومتی عہدیداروں اور سیاسی جماعتوں، تاجر انجموں اور سول سوسائٹی گروپس کے نمائندوں سے ملاقاتیں کرے گا اور جموں کے مضافات میں واقع علاقے جٹی میں قائم کشمیری پنڈت (برہمن ہندو) مہاجرین کے کیمپ کا دورہ بھی کرے گا۔
سفارت کاروں کا یہ وفد بھارتی وزارتِ خارجہ کی دعوت پر نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کا دورہ کر رہا ہے۔ وفد میں نئی دہلی میں تعینات امریکہ کے سفیر کینتھ اے جسٹر بھی شامل ہیں۔ وفد کے باقی اراکین کا تعلق جنوبی کوریا، ویتنام، برازیل، ازبکستان، نائجر، نائجیریا، مراقش، گیانا، ارجنٹینا، فلپائین، ناروے، مالدیپ، فجی، ٹوگو، بنگلہ دیش اور پیرو سے ہے۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان نے بتایا کہ سفارت کاروں کے اس دورے کا اہتمام جموں و کشمیر میں پائی جانے والی صورتِ حال کے پیشِ نظر کیا گیا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ یورپی یونین کے سفیر بھی وفاق کے زیرِ انتظام علاقے کا دورہ کرنا چاہتے ہیں، ’’لیکن، ہم نے ہر ایک کو دعوت نہیں دی‘‘۔
وزارتِ خارجہ نے مزید بتایا ہے کہ مختلف ممالک کے سفارتی نمائندوں کا جموں و کشمیر کا یہ آخری دورہ نہیں ہے، بلکہ اس طرح کے مزید دوروں کا اہتمام کیا جا سکتا ہے اور ان میں یورپین یونین کے سفارت کاروں کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔
بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی آئینی نیم خود مختاری کو ختم کرکے ریاست کو براہ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقوں میں تقسیم کر دیا۔ اس متنازع اقدام کے خلاف حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے مزاحمت جاری ہے۔ ان جماعتوں کے بیشتر قائدین اور سرکردہ کارکن گزشتہ پانچ ماہ سے جیلوں یا اپنے گھروں میں نظربند ہیں۔ سیاسی اجتماعات منعقد کرنے پر پابندی ہے اور انتظامیہ کی طرف سے نافذ کی جانے والی بندشوں اور جزوی مواصلاتی بلیک آؤٹ کے باعث علاقے، بالخصوص مسلم اکثریتی وادی کشمیر میں زندگی کے معمولات مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکے ہیں۔
بھارت میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس نے اس صورتِ حال میں غیر ملکی سفارت کاروں کو جموں و کشمیر کا دورہ کرنے کی دعوت دینے پر نریندر مودی حکومت کو نکتہ چینی کا ہدف بناتے ہوئے کہا ہے کہ ایک طرف حکومت نے جموں و کشمیر کے سینکڑوں سیاسی لیڈروں اور کارکنوں کو قید کر رکھا ہے اور بھارت کی سیاسی جماعتوں کے لیڈروں یہاں تک کہ بھارتی پارلیمان کے ممبران کو علاقے کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے اور دوسری جانب غیر ملکی سفارت کاروں کو کشمیر لاکر انہیں حکومت کے منظورِ نظر افراد سے ملایا جا رہا ہے۔
بھارت کی مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی کے مقامی لیڈر محمد یوسف تاریگامی نے کہا "غیر ملکی سفارت کاروں کو موجودہ حالات میں جموں و کشمیر کا دورہ کرنے کی دعوت دینے اور اس دورے کا انتظام و انصرام حکومتی اداروں کی طرف سے کرائے جانے کا آخر مقصد کیا ہے؟ اگر مقصد ان کے اور یہاں کے لوگوں کے درمیان میل ملاپ کا ہے، تو انہیں عام لوگوں سے ملنےاور اپنی پسند کے مقامات پر جانے کی اجازت کیوں نہیں دی جا رہی ہے۔
جہاں تک سیاسی لیڈروں اور نمائندوں سے ملاقاتیں کرکے ان کے خیالات جاننے کا تعلق ہے دنیا جانتی ہے کہ ان میں سے اکثر یا تو جیل خانوں میں قید ہیں یا انہیں ان کے گھروں میں نظر بند کردیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ "کئی امور اور مسائل ایسے ہیں جن کے حوالے سے غیر ملکی سفارت کار یا ممبرانِ پارلیمنٹ حکومت کی مدد کرسکتے ہیں اور نہ ان کے جموں و کشمیر کا دورہ فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ حکومت کو ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ان سفارت کاروں کی اجازت درکار نہیں ہے، بلکہ انہیں مقامی لیڈرشپ اور عام لوگوں کے ساتھ سلسلہ جنبانی بحال کرکے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ جموں وکشمیر کی صورتِ حال میں بہتری غیر ملکی سفیروں کو یہاں لاکر نہیں بلکہ لوگوں کے ساتھ میل ملاپ بڑھا کر ہی لائی جا سکتی ہے"۔
تجزیہ نگار اور سنٹرل یونیورسٹی آف کشمیر میں شعبہ قانون اور بین الاقوامی تعلقات کے سابق سربراہ ڈاکٹر پروفیسر شیخ شوکت حسین نے کہا "دفعہ 370 ہٹانے کے بعد بھارت کی حکومت دنیا بھر میں خاصی بدنام ہوگئی ہے۔ اسی بدنامی کا داغ مٹانے کے لیے نئی دہلی نے کئی کوششیں کی ہیں، جن میں غیر ملکی سفارت کاروں کو یہاں لاکر انہیں یہ باور کرانا کہ یہاں حالات نارمل ہیں بھی شامل ہے"۔
تاہم، شیخ شوکت حسین کا یہ بھی کہنا تھا کہ "یہ سلسلہ اس لیے بے معنیٰ بن جاتا ہے، کیونکہ جموں و کشمیر کی سیاسی قیادت چاہے وہ بھارت نواز ہو یا علحیدگی پسند جیلوں یا گھروں میں نظر بند ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ غیر ملکی سفارت کاروں کا جموں و کشمیر کا دورہ کروا کے بھارتی حکومت کو دنیا میں اپنی شبیہ بہتر بنانے میں کوئی مدد ملے گی۔"
واضح رہے کہ گزشتہ سال اکتوبر میں یورپ کی انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 23 قانون سازوں کے ایک وفد نے بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی صورتِ حال کا بہ نفسِ نفیس جائزہ لینے کے مقصد سے سرینگر کا دورہ کیا تھا۔ وفد نے سرینگر میں اپنے دو روزہ قیام کے دوران سرکاری عہدیداروں، مخصوص سیاسی جماعتوں کے نمائندوں، سیاحت کی صنعت سے وابستہ تاجروں، سول سوسائٹی گروپس کے ارکان اور صحافیوں سے ملاقاتیں کی تھیں۔ تاہم، ان سے ملنے والے ان تمام افراد کا انتخاب سرکاری اداروں نے کیا تھا۔
سرینگر سے واپسی سے پہلے وفد کے ارکان نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ وہ مقامی سیاست میں دخل اندازی نہیں کرنا چاہتے۔ تاہم، وہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے بھارتی حکومت کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے جس کا قلع قمع کرنا ناگزیر ہے اور اس سلسلے میں تمام ممالک کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے بھارت اور پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ تمام آپسی مسائل کو حل کرنے کے لیے پُر امن بات چیت اور افہام و تفہیم کا راستہ اپنائیں۔
ادھر، بھارتی ذرائع ابلاغ کے ایک حصے نے دورے پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے، اس کی ساخت، غیر جانبداری اور افادیت پر حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے بھی سوال اٹھائے ہیں۔
بھارتی نجی ٹیلی ویژن چینل این ڈی ٹی وی نے انکشاف کیا تھا کہ جس غیر سرکاری تنظیم 'ویسٹ' نے یورپی قانون سازوں کی میزبانی کا ذمہ لیا تھا وہ ایک ایسی بھارتی نژاد خاتون تاجر مادی شرما چلا رہی ہیں جو کئی طرح کے تنازعات میں گھری ہوئی ہیں۔ چینل نے یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ وفد کے سفر اور قیام و طعام پر آنے والا بھاری خرچہ کون اٹھا رہا ہے۔
بعض بھارتی تجزیہ نگاروں نے کہا ہے کہ وفد میں شامل اراکین کا تعلق اٹلی، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور پولینڈ کی انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں سے ہے جو تارکینِ وطن سمیت کئی امور پر انتہا پسندانہ خیالات کی حامل جماعتیں ہیں اور کسی بھی ملک سے تعلق رکھنے والے گندمی رنگت کے حامل افراد کا یورپ آنا پسند نہیں کرتیں۔ اس وجہ سے، بقول تجزیہ نگار، بین الاقوامی برادری میں ان کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔
یہ وفد سرینگر کے لیے روانگی سے پہلے نئی دہلی پہنچا تھا تو اس کے اراکین کی تعداد 27 تھی۔ لیکن، وفد میں شامل چار ارکان نے عین آخری وقت پر اس سے یہ کہہ کر علیحدگی اختیار کرلی کہ ان کی طرف سے وادی کشمیر کے دورے کے دوران اپنی مرضی کے مطابق مقامات پر جا کر لوگوں سے ملنے کی اجازت دینے کی درخواست کو بھارتی حکومت نے مسترد کیا ہے۔
وفد کی سرینگر میں آمد کے ساتھ ہی وادی کشمیر کے کئی علاقوں میں لوگوں نے سڑکوں پر آکر بھارت مخالف مظاہرے کیے اور تاجروں نے از خود کاروباری سرگرمیاں مکمل طور پر معطل رکھیں۔