بھارت: جی 20 اجلاس یوکرین میں روسی جارحیت کی مذمت پر اتفاقِ رائے کے بغیر ختم

جی 20 ممالک کے وزرائے خزانہ کا اجلاس بھارت کے شہر بنگلورو میں منعقد ہوا۔

دنیا کی مستحکم معیشتوں اور ترقی پذیر 20 ملکوں کے گروپ جی ٹوئنٹی کے وزرائے خزانہ اور مرکزی بینکوں کے سربراہوں کا بھارت کے شہر بنگلورو میں ہونے والا اجلاس یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت پر مذمت پر اتفاقِ رائے کے بغیر ختم ہوگیا۔

عدم اتفاق کی وجہ سے اجلاس کے اختتام پر کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا۔ البتہ بھارت نے ’سمری اینڈ آوٹ کم ڈاکومنٹ‘ جاری کیا ہے۔

بھارت جی 20 کی صدارت کررہا ہے۔ اجلاس کے دوران جہاں بیش تر ملکوں نے یوکرین پر حملہ کرنے کی وجہ سے روس کی مذمت کی وہیں روس اور چین نے کسی مشترکہ بیان پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت یوکرین جنگ کے مسئلے پر تبادلۂ خیال سے بچنا چاہ رہا تھا لیکن مغربی ممالک کا اصرار تھا کہ یوکرین پر روس کی کارروائی کی مذمت ہونی چاہیے۔

بھارت نے اپنے بیان میں اجلاس کی دو روزہ کارروائی کا ذکر کرتے ہوئے تنظیم کے ارکان میں پائے گئے اختلاف رائے کا حوالہ بھی دیا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ بیش تر ملکوں نے یوکرین جنگ کی سختی سے مذمت کی اور اس بات پر زور دیا کہ جنگ کی وجہ سے لوگوں کو زبردست مشکلات سے گزرنا پڑ رہا ہے اور عالمی معیشت میں عدم استحکام پیدا ہو گیا ہے۔

بیان میں روس کے خلاف امریکہ اور یورپی ملکوں کی جانب سے عائد پابندیوں کے بارے میں کہا گیا کہ موجودہ صورتِ حال اور روس پر پابندیوں کے سلسلے میں مختلف آرا کا اظہار کیا گیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق جی ٹوئنٹی اجلاس کی صدارت کرنے والی بھارت کی وزیرِ خزانہ نرملا سیاترمن نے کہا کہ جو بیان جاری کیا گیا ہے وہ اعلامیہ نہیں ہے البتہ آوٹ کم ڈاکومنٹ ہے۔ تاہم ان کے خیال میں ہم سمجھتے ہیں کہ تمام وزرا کو یکجا کرنے میں پیش رفت ہوئی ہے۔

جرمنی کے وزیرِ خزانہ کرسچین لنڈنر نے کہا کہ مشترکہ ڈکلریشن پر دستخط کرنے سے چین کا انکار افسوس ناک ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

روس کے یوکرین پر حملے کا ایک سال مکمل: کب کیا ہوا؟

جب کہ امریکی وزیرِ خزانہ جینیٹ ایلین کے مطابق کسی بھی بیان کے لیے روس کی مذمت ناگزیر تھی۔

خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق رو س اور چین نہیں چاہتے کہ گروپ۔20 کے پلیٹ فارم کو سیاسی امور پر بحث کے لیے استعمال کیا جائے۔

روس نے یوکرین میں اپنی کارروائی کو فوجی آپریشن قرار دیا اور اسے جنگ ماننے سے انکار کیا۔

بھارت اس موقعے پر بھی اپنے اسی غیر جانب دارانہ موقف پر قائم رہا جو اس نے جنگ شروع ہونے کے وقت اختیار کیا تھا۔ اس نے روسی حملے کی مذمت کرنے سے انکار کیا اور سفارت کاری سے مسئلے کے حل پر زور دیا۔

یاد رہے کہ بھارت اور چین نے جمعرات کو اقوام متحدہ میں پیش کی جانے والی اس قرارداد پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا جس میں روس سے یوکرین سے اپنی فوجیں واپس بلانے اور جنگ بند کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔

’اعلامیہ جاری نہ ہونا نئی بات نہیں‘

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جی۔ 20 کے اجلاس میں کسی اعلامیہ کا جاری نہ ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں انڈونیشیا کے دارالحکومت بالی میں ہونے والے اجلاس میں بھی اختلاف رائے کی وجہ سے کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا تھا۔

بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار اسد مرزا کہتے ہیں کہ یکم اور دو مارچ کو نئی دہلی میں ہونے والے گروپ بیس کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بھی یوکرین روس کے معاملے پر اختلاف رائے کا امکان ہے اور ممکنہ طور پر اس میں بھی کوئی اعلامیہ جاری نہیں ہو سکے گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یوکرین جنگ کی وجہ سے عالمی معیشت پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ اسے جس تیزی سے ترقی کرنا چاہیے تھا وہ نہیں کر رہی ہے۔ جس کی وجہ سے مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ عالمی سپلائی چین متاثر ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ مغربی ملکوں کے لیے تشویش ناک بات یہ ہے کہ توانائی اور غذائی سلامتی کو خطرات لاحق ہوتے جا رہے ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ جو ڈاکومنٹ جاری کیا گیا ہے اس میں روس اور چین کے مؤقف کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ دونوں ملک اجلاس میں ہونے والے تبادلہ خیال سے مطمئن نہیں تھے۔

SEE ALSO: پاکستان, روسی جارحیت کی کھل کر مذمت کرے: یوکرینی سفیر کا مطالبہ


تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت نے اس جنگ کے شروع ہونے کے بعد سے ہی جو موقف اختیار کیا تھا اب بھی اسی پر قائم ہے۔

اسد مرزا کہتے ہیں کہ یہ بھی عجیب بات ہے کہ روسی کارروائی کی مذمت نہ کرنے کے باوجود امریکہ سے بھی بھارت کے رشتے بڑھ رہے ہیں اور روس سے تو بڑھ ہی رہے ہیں۔ ان کے خیال میں اس سے بھارت کی خارجہ پالیسی کی کامیابی ظاہر ہوتی ہے۔

کیا اجلاس ناکام ہوگیا؟

رپورٹس کے مطابق اجلاس کے دوران عالمی معیشت پر تبادلہ خیال ہوا۔ بھارت کی وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم پرانے تنازعات میں الجھنے کے بجائے ایک ایسا نیا میکینزم بنانا چاہتے ہیں جس کے تحت باہمی رابطہ کاری میں تیزی آئے اور جو ملک قرضوں میں پھنستے چلے جا رہے ہیں، انہیں اس سے باہر نکالا جائے۔

اسد مرزا کے خیال میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بنگلورو اجلاس ناکام ہو گیا کیوں کہ اس ایک سال کے اندر جہا ں جہاں بھی مختلف ملکوں کے درمیان تبادلہ خیال ہوا ہے اس پر روس یوکرین جنگ کے مسئلے کا سایہ رہا ہے۔ لہٰذا اس اجلاس پر بھی اس کا سایہ قائم رہا۔

دریں اثنا روس نے الزام عائد کیا ہے کہ مغرب کی جانب سے یوکرین پر مشترکہ بیان جاری کرنے پر زور دیا گیا اور اس طرح اس نے اجلاس کو ناکام بنانے کی کوشش کی۔ اس نے امریکہ، یورپی یونین اور جی۔سیون پر بھی ایسا ہی الزام لگایا ہے۔

روسی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ، یورپی یونین اور گروپ-سیون کے ممالک نے اپنی مرضی تھوپنے کی کوشش کی۔ روس نے اسے بلیک میل سے تعبیر کیا ہے۔