’برین ٹراما‘ کی تشخیص کا نیا اور سستا آلہ

یہ مشین بنیادی طور پر ایک ایسا سکینر ہے جو برقی مقناطیسی لہریں استعمال کرتے ہوئے دماغ کی چوٹ کا معائنہ کرتا ہے۔
تحقیق دان ایک ایسی سستی ڈیوائس بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں جو دماغ کو چوٹ لگنے کی صورت میں تیزی سے اور دماغ کا بالکل درست تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

دنیا بھر میں بسنے والے تمام افراد دماغی معائنے کے لیے ہائی ٹیک میڈیکل امیج یا تصاویر بنوانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ وہ نہیں جانتے کہ جدید سائنس کی وجہ سے دماغ کے معائنے کے لیے کیے جانے والے ایکس ریز یا سی ٹی سکینز کیا ہیں۔ اس کی وجہ ان ٹیسٹوں کا بہت مہنگا ہونا اور غریب آدمی کی پہنچ سے باہر ہونا ہے۔

یونیورسٹی آف کیلی فورنیا برکلے سے منسلک بائیو میڈیکل انجینئیرنگ کے پروفیسر بورس روبنسکی کہتے ہیں کہ چونکہ ترقی پذیر ممالک میں غریب افراد کے لیے جدید طریقہ ِ علاج سے اپنے دماغ کا کم داموں میں معائنہ کرانا ممکن نہیں ہے اسی لیے ان افراد کی ضرورت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ جدید ڈیوائس بنائی گئی ہے۔

یہ مشین بنیادی طور پر ایک ایسا سکینر ہے جو برقی مقناطیسی لہریں استعمال کرتے ہوئے دماغ کی چوٹ کا معائنہ کرتا ہے۔

ماہرین ِ طب کہتے ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ سر پر چوٹ لگنے سے دماغ کی چوٹ بظاہر سامنے بھی دکھائی دے۔ بعض اوقات دماغ کے اندرونی حصوں کو چوٹ پہنچتی ہے۔ پروفیسر بورس روبنسکی کہتے ہیں کہ یہ جدید سکینر دماغ کے اندر موجود بافتوں (ٹشوز) کی جانچ کرتا ہے۔ اُن کے مطابق دماغ پر شدید چوٹ آنے کے بعد بعض اوقات دماغ کے اندر سوزش بھی ہو جاتی ہے، دماغ میں پانی یا خون بھر جاتا ہے۔ اس صورت میں بھی یہ سکینر دماغ کی مکمل جانچ کرکے ایسی چیزوں کی نشاندہی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

پروفیسر بورس روبنسکی اور ان کے ساتھیوں نے میکسیکو کے ایک ہسپتال میں چھیالیس افراد پر ایک تحقیق کی۔ یہ افراد 18 سے 48 برس کی عمر کے تھے اور یہ سب ’برین ٹراما‘ نامی بیماری میں مبتلا تھے۔ تحقیق دانوں نے اس تحقیق میں ان تمام افراد کا سی ٹی سکین کا روایتی ٹیسٹ بھی کیا اور پھر اس نئی ڈیوائس سے ان کا دماغی معائنہ بھی کیا۔

پروفیسر بورس روبنسکی کہتے ہیں کہ، ’اس جائزے کے نتائج حیران کن تھے۔‘

نہ صرف اس جدید ڈیوائس نے برین ٹراما میں مبتلا افراد کی درست نشاندہی کی بلکہ یہ بھی بتایا کہ کن کن مریضوں کے دماغ میں سوجن ہے۔

یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے تحقیق دان ابھی اس ڈیوائس کے مزید ٹیسٹ بھی کر رہے ہیں۔ پروفیسر بورس روبنسکی کہتے ہیں کہ اس سکینر کی قیمت دو سو ڈالر کے لگ بھگ ہوگی۔