پاکستان کی مہنگی ترین رہائشی زمینیں دارلحکومت اسلام آباد اور اس کے گرد و نواح میں واقع ہیں۔ ان زمینوں پر پلاٹ بنا کر بیچنے کے لیے پچھلی دو دہائیوں سے درجنوں ہاؤسنگ سوسائیٹیوں نے مختلف اسکیمیں شروع کیں جن میں سے زیادہ تر نے یہ کام نہ صرف مکمل کیا بلکہ آج ان علاقوں میں ہر طرف زندگی رواں دواں نظر آتی ہے۔
زمینوں کے کاروبار میں سول اداروں کے بعد ڈیفنس (ڈی ایچ اے) اور بحریہ ٹاؤن پاکستان کے دو بڑے اور معتبر ناموں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ لیکن گزشتہ تقریباً ایک دہائی سے اسلام آباد میں ان دونوں اداروں کے ایک مشترکہ پراجیکٹ کے متاثرین کی کوئی شنوائی نہیں۔
ڈینفس ہاؤسنگ اتھارٹی نے 2008ء میں اسلام آباد ایکسپریس وے سے متصل 'ڈی ایچ اے ویلی' کے نام سے ایک ہاؤسنگ اسکیم شروع کی جس میں تین رہائشی بلاکس کے علاوہ ایک کمرشل بلاک بنانے کا اعلان کیا گیا۔
یہاں پلاٹس کے خواہشمندوں سے درخواستیں وصول کی گئیں اور قرعہ اندازی کے ذریعے جو افراد پلاٹس خریدنے کے اہل قرار پائے انہیں تین سالوں پر محیط عرصے میں مختلف اقساط میں زمین کی کل رقم ادا کرنا تھی۔
ایک اندازے کے مطابق تقریباً 50 ہزار لوگوں کو یہاں پلاٹوں کی الاٹمنٹ کے ابتدائی خطوط جاری کر دیے گئے۔ جہاں سرمایہ کاری کے نقطہ نظر سے بہت سے لوگوں نے یہاں پلاٹس حاصل کرنے کے لیے طبع آزمائی کی، وہیں بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جو آسان قسطوں پر زمین حاصل کر کے اپنے لیے ایک گھر بنانے کی خواہش رکھتے تھے۔
شہروں میں آئے روز نئی نئی ہاؤسنگ اسکیمز کے اشتہارات لوگوں کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ان میں اکثر کے پاس یا تو پوری زمین نہیں ہوتی یا پھر متعلقہ انتظامیہ سے باضابطہ منظوری نہ ہونے کی وجہ سے یہ منصوبے طوالت اختیار کر جاتے ہیں اور بہت سے لوگوں کی رقم یا تو پھنس جاتی ہے یا پھر ڈوب جاتی ہے۔
ڈی ایچ اے پر لوگوں کو اس باعث اعتماد تھا کہ یہ فوج کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ لیکن ڈی ایچ اے ویلی کے منصوبے کو آغاز میں ہی مختلف تنازعات کا سامنا کرنا پڑا اور تقریباً ایک دہائی گزر جانے کے باوجود لوگوں کے پاس مالکانہ حقوق کے کاغذ تو ہیں لیکن زمین نہیں ہے جس پر یہ لوگ اپنے خوابوں کا وہ مسکن تعمیر کر سکیں جسے اپنی چھت کہا جا سکے۔
راولپنڈی کے ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے شیخ احسان اکبر کا ڈی ایچ اے ویلی میں آٹھ مرلے کا ایک پلاٹ ہے۔ لیکن، صرف نقشے پر۔
انھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ چھ سال قبل تک وہ تقریباً تمام رقم ادا کر چکے تھے۔ لیکن، ابتدائی طور پر تین سال کا وقت دینے والا ادارہ انہیں اب کچھ بھی واضح طور پر نہیں بتا رہا کہ پلاٹ کب تیار ہوگا۔
اُن کے الفاظ میں "جس دن بیانہ جمع کروا کر آیا تھا میرے احساسات بہت اچھے تھے۔ ڈی ایچ اے کا اس وقت نام بھی تھا، ساکھ بھی تھی۔ میرا خیال تھا میں یہاں اپنا گھر بناؤں گا۔ اگر یہی پیسے میں کہیں اور لگاتا تو آج دس سال بعد مجھے آٹھ لاکھ کا 80 لاکھ روپیہ مل رہا ہوتا۔"
احسان اکبر کہتے ہیں کہ ان کا یہ "پلاٹ" بیچنے کا ابھی اس لیے بھی ارادہ نہیں کیونکہ وہ خیال کرتے ہیں کہ اگر یہاں کچھ ترقیاتی کام ہو جائے تو شاید اس کی بہتر قیمت مل جائے۔
اُ نھوں نے کہا کہ "میں نے پلاٹ نہیں بیچا۔ بس انہیں (ڈی ایچ اے) ہی دیکھتا رہا۔ لیکن، ابھی تک کچھ بھی نہیں۔ دو دفعہ گیا وہاں کچھ پتا ہی نہیں چلتا وہاں تو جیسے پوٹھوہار خطے جیسے ہی صورتحال ہے، کہیں پہاڑی ہے کہیں نشیب کچھ پتا نہیں چلتا۔۔۔فرض کریں ڈی ایچ اے مجھے میرے پیسے دے بھی دے تو میں اب کہاں پلاٹ لوں اتنے پیسوں سے۔"
اس منصوبے میں سمندر پار پاکستانیوں نے بھی سرمایہ کاری کی جو ریاستِ پاکستان سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ پاکستانی جو باہر سے بھیجی گئی رقوم کے ذریعے ملک کے فارن ایکس چینج اور معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ان کی محنت کی کمائی لوٹانے والا کوئی ہے؟ کوئی ہے جو انہیں یقین دلائے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری محفوظ ہے؟ یا پھر طاقتور اداروں کے آگے ریاست بھی مجبور ہے۔ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی نے اس منصوبے میں بحریہ ٹاؤن اور حبیب رفیق (لمیٹڈ) کو شریک بنایا تھا۔ اس منصوبے کے لیے جو زمین حاصل کی جانی تھی اس کا ایک بڑا حصہ ایک مجوزہ ڈیم کی حدود میں آنے کی وجہ سے یہ معاملہ تنازع کا شکار ہوا جو ابھی تک حل نہیں ہو سکا۔
ڈی ایچ اے ویلی میں پلاٹس کی ملکیت کے لیے لا تعداد لوگوں نے مکمل رقم ادا کر دی تھی جب کہ بہت سے ایسے بھی ہیں جنہوں نے اس صورتحال کے پیش نظر کچھ قسطیں جمع نہیں کروائیں۔
ان پلاٹس کی فائلیں بھی گردش کر رہی ہیں جن کی قیمت 70 ہزار سے لے کر چار لاکھ روپے تک ہے۔
ڈی ایچ اے ویلی میں داخل ہوں تو یہاں ایک کشادہ سڑک وسیع و عریض ویرانے سے گزرتی ہے جہاں کہیں کہیں تعمیراتی یا ترقیاتی کام کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن، باقاعدہ رہائشی کالونی کے لیے بنائے جانے والے پلاٹ نظر نہیں آتے۔
ویلی کے دفتر میں موجود عملے کو بھی یہ معلوم نہیں کہ یہ پلاٹ کب تک تیار ہوں گے، اور ان کے بقول، اگر آپ یہاں پلاٹ خریدنا چاہیں تو "طویل المدت سرمایہ کاری" کو ہی ذہن میں رکھیے نا کہ آج پلاٹ خریدا اور کل گھر بنانا شروع۔
ڈی ایچ اے ویلی کے متاثرین نے ایک تنظیم بھی بنائی اور اس معاملے کو عدالت میں بھی لے کر گئے جس کے بعد یہ معاملہ دو سال قبل قومی احتساب بیورو تک پہنچا۔
تنظیم کے صدر ریاض حنیف راہی کے مطابق، نیب نے انھیں بتایا کہ اس معاملے پر تحقیقات کے آغاز کے لیے کم از کم پچاس شکایت کنندگان کا ہونا ضروری ہے اور ان کے بقول اتنے ہی لوگوں نے اپنی شکایت درج بھی کروا دی۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ تاحال اس پر بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور متاثرین میں سے کچھ لوگوں نے یا تو اپنے پلاٹس کی فائلیں بیچ دی ہیں اور یا پھر کسی "اچھے کی امید" کے انتظار میں ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ کی طرف سے ڈی ایچ اے ویلی کے دفتر میں متعلقہ عہدیداروں سے رابطے کی کوششیں ابھی تک بار آور نہیں ہوئیں اور قومی احتساب بیورو کے متعلقہ ڈپٹی ڈائریکٹر ملک زبیر بھی کوئی جواب نہیں دے رہے۔
البتہ، ’وی او اے‘ نے ڈی ایچ اے کے مارکٹنگ اینڈ سیلز افسر، محمد ہاشر سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ پلاٹ کے قبضہ دینے میں ابھی مزید 3 سے 5 سال لگ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مقامی لوگوں نے شاملات کی بنیاد پر عدالتوں سے ڈی ایچ اے کے خلاف سٹے آرڈر لیا ہوا ہے جس وجہ سے تاخیر ہو رہی ہے۔
(اس سلسلے کی اگلی رپورٹ لاہور کے ڈی ایچ اے سٹی کے بارے میں ہوگی)