پاکستان کی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف سزائے موت کے تفصیلی فیصلے سے وہ خدشات درست ثابت ہو گئے ہیں جن کا اظہار پہلے کیا تھا۔ ان کے بقول فیصلے میں استعمال کیے گئے الفاظ ہر قسم کی اقدار سے بالاتر ہیں۔
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ وہ ملک اور ادارے کی عزت اور وقار کا دفاع کرنا جانتے ہیں اور اس کا بھر پور دفاع کریں گے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ تفصیلی فیصلے میں استعمال کیے گئے الفاظ انسانیت، مذہب تہذیب اور ہر قسم کی اقدار سے بالاتر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جو کام دنیا کی کوئی فوج نہیں کر سکی، وہ پاکستان کی افواج نے اپنی عوام کی مدد سے کر کے دکھایا۔ دشمن ہمیں اشتعال دلاتے ہوئے آپس میں لڑانا چاہتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہو گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم اندرونی و بیرونی دشمنوں کو ناکام کریں گے اور ان کے آلہ کاروں کو بھرپور جواب دیں گے۔ ہم اپنے بڑھتے ہوئے قدم پیچھے نہیں ہٹائیں گے۔
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف فیصلے سے متعلق وزیرِ اعظم عمران خان سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تفصیلی بات ہوئی ہے۔ جس میں فیصلے کے بعد پیدا ہونے والے حالات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
میجر جنرل آصف غفور نے کہا آرمی چیف اور وزیرِ اعظم کے درمیان جو فیصلے ہوئے ہیں، ان سے حکومت کچھ دیر میں آگاہ کرے گی۔
اس سے قبل جمعرات کو خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کی سزائے موت کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ جمع کرائی گئی دستاویزات سے واضح ہے کہ ملزم نے جرم کیا ہے۔
فیصلے میں بینچ کے سربراہ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے تحریر کیا کہ پرویز مشرف کی پھانسی کی سزا پر ہر صورت عمل درآمد کرایا جائے۔ اگر پھانسی پر عمل در آمد سے قبل پرویز مشرف فوت ہو جاتے ہیں تو ان کی لاش کو ڈی چوک لایا جائے اور تین دن تک وہاں لٹکایا جائے۔
SEE ALSO: پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے میں کب کیا ہوا؟عدالت نے تفصیلی فیصلے میں لکھا ہے کہ تمام الزامات کسی شک و شبہے کے بغیر ثابت ہوتے ہیں۔ لہٰذا ملزم کو ہر الزام پر علیحدہ علیحدہ سزائے موت دی جاتی ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ ہائی ٹریزن ایکٹ 1973 کے تحت پرویز مشرف کو پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے۔
یاد رہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کو خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں 17 دسمبر کو موت کی سزا سنائی تھی جس پر پاکستان کی فوج کے ترجمان نے رد عمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس فیصلے سے فوج کے اندر شدید غم و غصہ اور اضطراب پایا جاتا ہے۔ ان کے بقول پرویز مشرف نے ملک کے لیے جنگیں لڑی ہیں وہ کسی صورت غدار نہیں ہو سکتے۔
جسٹس سیٹھ وقار کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا اعلان
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی وفاق میں قائم حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ دینے والے بینچ کے سربراہ جسٹس وقار احمد سیٹھ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
شہزاد اکبر اور فردوس عاشق اعوان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ یہ آج کے فیصلے میں پیرز 66 انتہائی اہم ہے۔
فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس وقار احمد سیٹح کے خلاف ریفرنس دائر کرنے جا رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسے جج کو عدلیہ کا حصہ رہنے کا حق نہیں ہے۔ یہ جج ذہنی طور پر عدلیہ میں کام کرنے کے لیے فٹ نہیں ہیں۔
خیال رہے کہ جنرل (ر) مشرف کے خلاف فیصلے میں جسٹس وقار نے تحریر کیا تھا کہ انہیں پھانسی کی سزا دی جائے اگر ان کی موت سے قبل سزا پر عمل نہ ہو سکے تو انہیں موت کے بعد اسلام آباد کے ڈی چوک پر لا کر لٹکایا جائے اور تین دن تک وہاں لٹکا رہنے دیا جائے۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ اگر کوئی بھی جج ایسی آبزرویشن دیتا ہے تو یہ عدلیہ کے لیے بہتر نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ فیصلے کے پیرا 66 میں کہا گیا پرویز مشرف کی لاش کو 3 دن تک ڈی چوک میں لٹکایا جائے۔ سر عام پھانسی اسلامی روح کے خلاف ہے۔ ایسا تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ یہ تضحیک آمیز ہے۔
وفاقی وزیر نے سوال اٹھایا کہ سمجھ سے بالاتر ہے جج نے ایسا فیصلہ کیوں دیا۔
وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ جسٹس وقار احمد سیٹھ کو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے جج ہونے کا حق نہیں۔ فیصلے سے ثابت ہوتا ہے جسٹس وقار سیٹھ کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں۔
انہوں نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ عدلیہ جسٹس وقار احمد سیٹھ کو کام سے فی الفور روک دے۔ بہت جلد آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے جا رہے ہیں۔