پاکستان میں طبی ماہرین نے کہا ہے کہ ڈیکسا میتھازون کے کرونا کے مریضوں پر استعمال سے متعلق بین الاقوامی تحقیق کے حوالے سے یہ سمجھنا کہ کرونا وائرس کا علاج دریافت ہو گیا ہے، بالکل درست نہیں ہے۔
ڈیکسا میتھازون کے حوالے سے برطانیہ میں ہونے والی تحقیق پر پاکستان کے طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونیکل اسٹیرائڈز مریض کو دی جانے والی ادویات کا لازمی جز ہے۔ کرونا وائرس سے کم متاثر ہونے والے مریض کے لیے اس دوا کا استعمال انتہائی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈیکسا میتھا زون یا اس جیسی دیگر اسٹیرائڈز پہلے ہی کرونا وائرس سے شدید متاثرہ مریضوں کے علاج کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔
برطانیہ میں ہونے والی حالیہ تحقیق میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ڈیکسا میتھازون نامی دوا سے کرونا وائرس سے شدید متاثر ہونے والے افراد کی زندگی بچائی جا سکتی ہے۔
تحقیق کے مطابق ڈیکسا میتھازون کرونا وائرس کے ان شدید متاثرہ افراد کے لیے کارگر ہے جو سانس لینے میں دِقت محسوس کر رہے ہوں یا وینٹی لیٹر کے سہارے زندہ ہوں۔
برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں کی جانے والی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس کے شکار وینٹی لیٹر پر موجود 8 میں سے ایک مریض کی جان ڈیکسا میتھا زون کے ذریعے بچائی جا سکتی ہے۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کا برطانوی تحقیق پر ایک ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ پاکستان میں ماہرین کی کمیٹی کرونا وائرس سے شدید متاثر ہونے والے مریضوں کے لیے ڈیکسا میتھا زون کے استعمال پر غور کرے گی۔
ڈاکٹر ظفر مرزا نے ڈیکسا میتھازون کے استعمال کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈیکسا میتھا زون کو کرونا وائرس سے شدید متاثرہ مریضوں خاص طور پر جو وینٹی لیٹر پر ہیں، ان کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جب کہ کم متاثر مریضوں کےلیے یہ دوا خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ اس دوا کے بہت سے سائیڈ ایفیکٹس ہیں۔
پاکستان میں کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد ایک لاکھ 76 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جب ہلاکتوں کی تعداد تین ہزار سے زائد ہے۔
مبصرین کے مطابق پاکستان میں اس وقت نہ صرف آکسیجن سلنڈرز کی کمی ہے بلکہ سرکاری و نجی اسپتالوں میں وینٹی لیٹرز بھی کرونا وائرس کے شدید متاثرہ مریضوں کی جان بچانے کے لیے ناکافی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈیکسا میتھازون : دو دھاری تلوار
یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر اور میڈیسن کے پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں ہونے والی تحقیق کے بارے میں یہ کہنا کہ اس سے کرونا وائرس کا علاج دریافت ہو گیا ہے یا کوئی بریک تھرو مل گیا ہے، بالکل غیر مناسب ہے۔
ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا تھا کہ انہیں پتا ہے کہ اسٹیرائڈز کے استعمال سے سوزش کم کرنے میں فائدہ ہوتا ہے لیکن اس کے بدلے میں آپ کو بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈیکسا میتھازون کا استعمال ایک دو دھاری تلوار ہے جس کا استعمال انتہائی احتیاط سے کیا جانا چاہیے۔
ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا کہ ڈیکسا میتھازون کے استعمال سے یہ ہو سکتا ہے کہ کرونا وائرس سے متاثرہ مریض کے جسم میں آکسیجن کی فراہمی بہتر ہو جائے کیوں کہ یہ دوائی پھیپھڑوں کی سوزش کو کم کرتی ہے۔
ان کے بقول اصل میں تو یہ دیکھنا ہو گا کہ اس دوا کے استعمال سے اموات میں کتنی کمی واقع ہوتی ہے۔ برطانیہ میں ہونے والی تحقیق سے بھی اب تک یہ پتا نہیں لگ سکا۔
ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کرونا وائرس سے شدید متاثر ایک بھی ایسا مریض موجود نہیں ہے جو کہ کرونیکل اسٹیرائڈز پر نہ ہو۔ یہ مریض کو دی جانے والی ادویات کا لازمی جز ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کچھ مریض ڈیکسا میتھازون پر ہوں گے۔ کچھ پریتھائل پریماسون پر ہوں گے جب کہ کچھ ہائیڈرو کولیسول پر ہوں گے۔ یہ سب ایک جیسے اسٹیرائڈز ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس دوا کا استعمال کرونا وائرس سے کم متاثر ہونے والے مریض کے لیے انتہائی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ البتہ کریٹیکل کنڈیشن میں مریضوں کو یہ پہلے ہی دی جا رہی ہے۔
ڈیکسا میتھازون کے فوائد
ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا تھا کہ ڈیکسا میتھازون کے فوائد اور نقصانات یکساں ہیں۔
ان کے بقول سوزش کم کرنے کے لیے ڈیکسا میتھازون کا استعمال وقتی طور پر اچھی چیز ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ برطانیہ میں اس دوا پر کی جانے والی تحقیق میں اس کے اثرات شدید متاثرہ مریضوں پر دیکھے گئے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جب برطانیہ میں ڈاکٹرز نے کرونا وائرس سے متاثرہ مریض کو یہ اسٹیرائڈز دیا ہوگا تو اس کے گردوں میں وائرس کی وجہ سے سوزش ہو گی۔ جو کہ وقتی طور پر کم ہوئی ہو ہوگی لیکن اس دوا کے بارے میں برطانیہ کی جانب سے جو دعوے کیے گئے ہیں۔ اس کا کرونا وائرس کے مریض کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں جب مریض کی آکسیجن کم ہو رہی ہو یا مریض وینٹی لیٹر پر چلا جائے تو تمام مریضوں کو اسٹیرائڈز دیے جاتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ انہیں ڈیکسا میتھازون دیا جا رہا ہو۔ ان کو میتھائل بریکون بھی دیا جاتا ہے۔ کوئی ہائیڈرو فروٹیسون دے رہے ہوں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈیکسا میتھازون کی صورت میں کوئی انکشاف نہیں ہوا ہے کہ کوئی ایسی دوا ایجاد ہو گئی ہے جو پہلے موجود نہیں تھی۔
ڈیکسا میتھازون کے نقصانات
ڈاکٹر اکرم جاوید کا ڈیکسا میتھازون کے سائیڈ ایفیکٹس کے بارے میں کہنا تھا کہ اس دوا کا سب سے بڑا سائیڈ ایفیکٹ یہ ہے کہ یہ جسم میں موجود وائرس کو ختم نہیں کرتی بلکہ اسے بڑھا دیتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ معمول میں وائرس کی تعداد میں جو اضافہ چار گھنٹوں میں ہوتا ہے ڈیکسا میتھا زون کے استعمال سے وہ اضافہ ایک گھنٹے میں ہوتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس دوائی سے جو سب سے بڑا نقصان ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ مریض کے جسم میں اگر کوئی انفیکشن موجود ہو۔ چاہے وہ بیکٹیریل ہو، وائرل ہو یا فنگس ہو۔ اس دوائی کے استعمال سے اس میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈیکسا میتھا زون کے سائیڈ ایفیکٹس کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا تھا کہ اگر کسی مریض کو شوگر نہ ہو تو اس دوا کے استعمال سے شوگر ہو سکتی ہے جب کہ اگر کسی مریض کو پہلے سے ہی شوگر ہو تو ڈیکسا میتھا زون کے استعمال سے اس کی شوگر آؤٹ آف کنٹرول ہو سکتی ہے۔
وفاقی حکومت کی 'کرونا ایڈوائزری ٹیکنیکل کمیٹی' کے سربراہ اور میڈیسن کے شعبے سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر محمود شوکت نے ڈاکٹر اکرم جاوید کے ڈیکسا میتھازون کے استعمال سے متعلق خدشات کو دہراتے ہوئے کہا کہ ان کی کمیٹی رواں سال 8 مئی کو ہی یہ تجویز کر چکی ہے کہ کرونا وائرس کے جو مریض کریٹیکل یا سیریس ہوں گے ان کو اسٹیرائڈز کا ٹرائل دینا ہے۔
پاکستان میں ڈیکسا میتھازون کی دستیابی
اس اسٹیرائڈ کی پاکستان میں دستیابی سے متعلق ڈاکٹر محمود شوکت کا کہنا تھا کہ یہ مقامی طور پر بننے والی سستی دوا ہے جب کہ اس کو درآمد کرنے کی پاکستان میں کوئی ضرورت نہیں ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ تحقیق سامنے آنے کے بعد لوگ اس دوا کو مارکیٹ سے غائب کر دیں گے اور زیادہ قیمتوں پر فروخت کریں گے جس کے بارے میں حکومت کو کچھ کرنا چاہیے۔
ڈیکسا میتھا زون کی قیمتوں میں اضافہ
برطانیہ کی ڈیکسا میتھا زون سے متعلق تحقیق سامنے آنے کے بعد صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے میڈیکل اسٹورز سے دوا غائب ہو گئی ہے تاہم لاہور کے کچھ میڈیکل اسٹورز ڈیکسا میتھازون کی مانگ کرنے والے گاہکوں کو چند ٹیلی فون نمبرز مہیا کر رہے ہیں۔
ان نمبروں پر کال کرکے اگر اس دوا کی دستیابی سے متعلق پوچھا جائے تو کہا جاتا ہے کہ ابھی تو ڈیکسا میتھا زون دستیاب نہیں ہے۔ تاہم اگر آپ کو چاہیے تو 3500 روپے میں اس کی سو گولیوں کا پیکٹ فراہم کیا جاسکتا ہے جب کہ میڈیکل اسٹورز والوں کے بقول اس تحقیق کے آنے سے پہلے اس پیکٹ کی قیمت 200 روپے تھی۔