افغانستان میں قید 24 پاکستانیوں کی رہائی کا مطالبہ

افغانستان اور پاکستان کے درمیان واقعے سرحدی گزرگاہ طورخم کا منظر (فائل فوٹو)

لواحقین ںے دعویٰ کیا کہ تمام گرفتار افراد چند سال قبل محنت مزدوری کے لیے افغانستان گئے تھے جہاں وہ وہاں لاپتا ہوگئے تھے۔

افغانستان میں قید خیبر پختونخوا کے 24 افراد کے لواحقین نے حکومت سے ان افراد کی رہائی کے لیے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

پیر کو پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے گرفتار افراد کے رشتے داروں نے بتایا کہ ان کا تعلق پشاور، چارسدہ، صوابی، نوشہرہ، مردان اور صوبے کے دیگر اضلاع سے ہے۔

لواحقین نے دعویٰ کیا کہ تمام گرفتار افراد چند سال قبل محنت مزدوری کے لیے افغانستان گئے تھے جہاں وہ وہاں لاپتا ہوگئے تھے۔

بعد ازاں ان افراد کے رشتے داروں کی کوششوں اور رابطوں سے معلوم ہوا کہ انہیں افغان حکام نے مختلف الزمات کے تحت گرفتار کرکے جیلوں میں بند کر رکھا ہے۔

پریس کانفرنس میں شریک اکبر علی، خیرالرحمان اور سجاد نامی افراد نے بتایا کہ وہ خود اپنے قید رشتے داروں سے ملنے کابل گئے تھے اور وہاں افغانستان کی عدالتوں اور حکام کو ان افراد کی رہائی کے لیے درخواستیں بھی دی تھیں۔

افغانستان میں گرفتار افراد کے لواحقین پشاور میں پریس کانفرنس کر رہے ہیں

انہوں نے بتایا کہ افغان عدالتیں ان میں سے بعض افراد کی رہائی کا حکم بھی دے چکی ہیں مگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے انہیں رہا کرنے کے بجائے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔

گرفتار افراد کا لواحقین کا کہنا تھا کہ چوں کہ یہ تمام افراد پاکستان کے شہری ہیں لہذا حکومتِ پاکستان کا فرض ہے کہ وہ ان کے رہائی کے لیے کردار ادا کرے۔

صوبہ خیبر پختونخوا کی حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما اور وزیرِ اعلیٰ کے مشیر شوکت علی یوسفزئی نے رابطے پر وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ ابھی تک کسی نے بھی اس معاملے پر صوبائی حکومت سے رابطہ نہیں کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی رابطہ کرے اور تفصیلات فراہم کرے تو صوبائی حکومت ان افراد کے رہائی کے لیے کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے کیونکہ یہ تمام افراد ان کے بقول ان کے صوبے کے باشندے ہیں۔

پریس کانفرنس کرنے والے افراد کا کہنا تھا کہ ان کے رشتے داروں کے علاوہ بھی افغانستان میں سیکڑوں پاکستانی قید ہیں جنہیں درالحکومت کابل کے علاوہ جلال آباد، خوست، قندھار اور دیگر شہروں کے قیدخانوں میں رکھا گیا ہے۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان میں قید پاکستانی شہریوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو تعمیرِ نو کے جاری منصوبوں میں مزدوری یا افغانستان میں کام کرنے والے بین الاقوامی تنظیموں اور نجی اداروں میں ملازمت کے لیے وہاں گئے تھے۔