بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے پلوامہ ضلع میں ایک بڑے خودکش حملے کے بعد بھارتی قیادت کے پاکستان مخالف جارحانہ بیانات کی وجہ سے دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے تاہم مبصرین کا کہنا ہے اس کشیدہ صورت حال اور بھارتی وزیر اعظم کے بدلہ لینے کے بیان کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کا کوئی امکان نہیں ہے۔
بھارتی کنڑول کے کشمیر میں گزشتہ ہفتے سیکورٹی فورسز کے ایک قافلے پر خودکش حملے میں وفاقی پولیس کے لگ بھگ 50 اہل کار ہلاک ہو گئے تھے۔
بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا اور اس کے بعد سے بھارتی حکومت کے اعلیٰ عہدیدار پاکستان کے خلاف مسلسل سخت بیانات دے رہے ہیں۔
بھارتی جانب سے سخت بیانات کے بعد ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ بھارت ممکنہ طور پر لائن آف کنڑول پر کوئی جارحانہ کارروائی کر سکتا ہے یا وہ سرحد پار کسی سرجیکل سٹرائیک کا خطرہ مول لے سکتا ہے جیسا کہ اس کی جانب سے 2016ء میں دعویٰ کیا تھا جسے پاکستان نے جھوٹ قرار دیتے ہوئے اس کی سختی سے تردید کر دی تھی۔
بھارتی فوج کے سابق میجر جنرل اور سلامتی کے امور کے تجزیہ کار دپنکر بینرجی نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں یہ دعویٰ کیا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے فوج کو تیار رہنے کا حکم دیا ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ ’’اگر کوئی فوجی کارروائی ہوتی ہے تو قدرتی طور اس کا ردعمل ہو گا اس صورت حال کی وجہ سے حالات کو معمول پر رکھنا مشکل ہو جائے گا‘‘۔
تاہم بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار اور سینیئر صحافی زاہد حسین کا کہنا ہے کہ اگر بھارت کسی محدود کارروائی سے ماورا کوئی بڑا فوجی ایکشن کرتا ہے تو اس صورت میں پاکستان کی طرف سے جوابی ردعمل ہو گا لیکن دونوں ملکوں کے درمیان کھلی جنگ کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں دو جوہری ملکوں کے درمیان تناؤ کی کیفیت کو برقرار رکھنا پاکستان اور بھارت دونوں کے مفاد میں نہیں ہے۔
’’جنوبی ایشیا کا خطہ دو جوہری حریف ملکوں کی کشیدگی کی وجہ سے پہلے ہی بارود کے دھانے پر ہے۔ اگر یہاں کوئی تیلی سلگائی جاتی ہے تو پھر آگ بھڑک سکتی ہے۔ جس کے بعد صورت حال کو کنڑول رکھنا ممکن نہیں رہے گا‘‘۔
کیا پاکستان کو سفارتی طور پر تنہا کرنا ممکن ہے؟
بھارتی وزیر اعظم کی طرف سے پاکستان کو سفارتی طور پر تنہا کرنے کی دھمکی پر تبصرہ کرتے ہوئے تجزیہ کار زاہد حسین نے کہا کہ نریندر مودی نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ کس طرح پاکستان کو تنہا کریں گے۔
’’کسی بھی ایک ملک کو بین الاقوامی سطح پر تنہا کرنا ممکن نہیں ہوتا چاہے کوئی ملک بڑا ہو یا چھوٹا ہو‘‘۔
’’پاکستان کے دوسرے ملکوں کے ساتھ باہمی مفادات پر مبنی گہرے تعلقات ہیں اور بھارت کے پاس پاکستان کے خلاف تعزیرات عائد کرنے کا بھی اخیتار نہیں ہے‘‘۔
اس صورت حال میں زاہد حسین کے بقول بھارتی قیادت کے یہ بیانات دھمکی سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے ہیں۔ تاہم ’’صورت حال یقینی طور پر خطرناک ہے لیکن یہ صورت حال محاذ آرائی میں تبدیل ہو سکتی ہے یا نہیں ؟ اس کے باوجود بھی کہ بھارت کا رویہ جارحانہ ہے، تو میں نہیں سمجھتا کہ ایسا ہو گا‘‘۔
بھارت اور بعض دیگر ملکوں کی طرف سے پاکستان پر بعض شدت پسند عناصر کو پناہ دینے اور انہیں سہولت فراہم کرنے کے الزام پہلے بھی عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ اگرچہ پاکستان ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
تاہم زاہد حسین کے بقول پاکستان کو بین الاقوامی برادری کے سامنے اپنے موقف کو واضح کرنا ہو گا کیونکہ جب ایسے الزامات پاکستان پر عائد کیے جاتے ہیں تو اس کی وجہ سے سوال اٹھائے جاتے ہیں۔
’’بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو اپنے تشخص کو بہتر کرنا ہو گا۔ کیونکہ جب پاکستان پر دہشت گردی کا کوئی الزام لگتا ہے تو بین الاقوامی برادری کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی برادری پر یہ واضح کرنا ہو گا کہ پاکستان کا ایسے واقعات میں کوئی ہاتھ نہیں ہے‘‘۔
دوسری طرف سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایک شورش کی کیفیت ہے اور نوجوانوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ زاہد حسین کے بقول بھارت پاکستان پر الزامات عائد کر کے اس صورت حال سے توجہ نہیں ہٹا سکتا اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے پیش نظر نئی دہلی کے لیے بین الاقوامی برداری کو باور کروانا کہ وہاں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ پاکستان کروا رہا ہے اسے کوئی بھی آسانی سے قبول نہیں کرے گا۔
دوسری طرف منگل کی شام وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارتی کشمیر میں گزشتہ ہفتے کے خود کش حملے کو "ہولناک" قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی حکومت مناسب وقت پر اس معاملے پر بیان دے گی۔
تاہم اس کے ساتھ ہی امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان اور بھارت اپنے معاملات خود ہی حل کر لیں تو یہ بہتر ہو گا۔
اگرچہ بین الاقوامی برادری پاکستان اور بھارت پر اپنے باہمی معاملات بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیتی آ رہی ہے تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان بھارت کی کشیدگی کم کروانے کی حد تک بین الاقوامی برادری کردار تو ادا کر سکتی ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تناؤ کی ایک بڑی وجہ کشمیر کا تنازع ہے، جس پر ثالثی کا کوئی امکان نہیں کیونکہ بھارت ثالثی قبول کرنے پر تیار نہیں ہے۔
پاکستان سعودی عرب قربت اور ایران کے تحفظات پاکستان اور بھارت میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران ایران میں ایک حالیہ دہشت گرد حملے کا الزام ایران کی عسکری قیادت کی طرف سے پاکستان پر عائد کیا جانا بھی تشویش کی بات ہے کیونکہ خطے کی تبدیل ہوتی ہوئی جیو اسٹریٹیجک صورت حال کی وجہ سے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں زیادہ وسعت پیدا ہو رہی ہے جسے ایران تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے۔
تجزیہ کار زاہد حسین نے کہا کہ سعودی عرب کی طرف بڑھتے ہوئے اپنے جھکاؤ کی وجہ سے پاکستان کے لیے مشرق وسطیٰ کے دو حریف ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن رکھنا ایک چیلنج ہے۔
سعودی عرب کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور عادل الجبیر نے حال ہی میں سعودی عرب کے ولی عہد کے پاکستان کے دورے میں ایران پر دہشت گردی کو فروغ دینے کے شدید الزامات عائد کیے تھے جس سے پاکستان کے لیے ایک مشکل صورت حال پیدا ہو گئی تھی۔ ایران نے اپنے ردعمل میں سعودی الزامات مسترد کرتے ہوئے سعودی عرب پر بھی ایسے ہی الزامات عائد کیے۔
پاکستان اور ایران کے درمیان طویل مشترکہ سرحد ہے، جس پر گاہے بگاہے دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ تاہم بعض مبصرین بھارت اور ایران کی جانب سے پاکستان کے خلاف کسی اقدام کو خارج از امکان قرار دیتے ہیں۔
پاکستان کی اپنے تین ہمسایہ ملکوں افغانستان، ایران اور بھارت کے ساتھ سرحد پر تناؤ کی کیفیت رہتی ہے اور اب سعودی عرب کے پاکستان کے زیادہ قریب آنے اور ایران سعودی کشیدگی بڑھنے کے اثرات سے خود کو محفوظ رکھنا پاکستان کے لیے آسان نہیں ہو گا۔