بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں شہریت بل مظاہروں کے دوران شروع ہونے والے فسادات میں ہلاکتوں کی تعداد 34 ہو گئی ہے۔ ان واقعات میں 200 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق مسلسل چار روز تک جاری رہنے والے پرتشدد واقعات کے بعد جمعرات کو حالات میں کچھ بہتری آئی ہے۔ البتہ مسلم اکثریتی علاقوں میں پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے اہلکار تعینات ہیں۔
بدھ کو رات گئے شمال مغربی دہلی کے علاقوں بھجن پور، موج پور اور کراول نگر میں بدامنی کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
چار روز سے جاری فسادات کے دوران درجنوں مکانات اور دکانوں کو نذر آتش کرنے کے علاوہ دیگر املاک کو بھی نقصان پہنچایا گیا ہے۔
دہلی پولیس نے بدامنی کے واقعات پر 18 مقدمات درج کر کے 100 سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ حالات اب اُن کے کنٹرول میں ہیں۔
پولیس کو پیشگی اطلاعات تھیں؟
بھارتی خبر رساں ادارے 'ٹائمز آف انڈیا' کے مطابق ممکنہ فسادات سے قبل حساس اداروں نے نئی دہلی پولیس کو چھ بار خطرے سے آگاہ کیا تھا۔ حساس اداروں نے اتوار کی دوپہر ایک بج کر 22 منٹ پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقامی رہنما کپل مشرا کی ٹوئٹ کے بعد بھی پولیس حکام کو مطلع کیا تھا۔ کپل مشرا نے اپنے حمایتیوں کو تین بجے موج پور چوک پر جمع ہونے کی ہدایت کی تھی۔
حالات کی نزاکت کو پرکھتے ہوئے انٹیلی جنس ونگ نے مقامی پولیس کو مشورہ دیا تھا کہ ان علاقوں میں اضافی نفری تعینات کر کے نگرانی سخت کی جائے۔ لیکن پولیس نے بروقت کارروائی نہیں کی۔
پولیس کا مؤقف ہے کہ شہریت بل کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں نے کپل مشرا کی ریلی پر پتھراؤ کیا جس کے بعد تصادم ہوا لیکن پولیس نے بروقت ان پر قابو پا لیا۔
البتہ ناقدین کا کہنا ہے کہ پیر کو فسادات کی تازہ لہر اور ہلاکتوں کے بعد پولیس حالات پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔
نئی دہلی کے وزیر اعلٰی اروند کیجریوال نے بدھ کو رات گئے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور شہریوں سے پرامن رہنے کی اپیل کی۔ اس سے قبل بدھ کو ہی بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے فسادات پر اپنا پہلا بیان جاری کرتے ہوئے شہریوں سے امن و امان برقرار رکھنے اور بھائی چارے کے فروغ کی اپیل کی تھی۔
دہلی ہائی کورٹ نے حکام پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے تشدد پر اکسانے اور نفرت انگیز تقاریر کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔ عدالت کا یہ حکم ایسے وقت پر سامنے آیا تھا جب حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے یونین وزیر انوراگ ٹھاکر اور مقامی رہنما کپل مشرا کی نفرت انگیز تقاریر کو فسادات پھوٹنے کا شاخسانہ قرار دیا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ حکمراں جماعت کے ان رہنماؤں نے اتوار کی شام شمال مشرقی دہلی میں ایک ریلی نکالی تھی۔ ان رہنماؤں کی تقاریر پر مبنی ویڈیوز کھلی عدالت میں چلائی گئی تھیں۔ دوران سماعت عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ وہ 1984 کے واقعات دہرانے کی کوشش برداشت نہیں کریں گے۔
خیال رہے کہ جون 1984 میں بھارتی پنجاب کے شہر امرتسر میں واقع سکھوں کے مذہبی مقام 'گولڈن ٹیمپل' پر بھارتی سیکیورٹی فورسز نے 'آپریشن بلیو اسٹار' کے نام سے کارروائی کر کے متعدد علیحدگی پسند سکھ رہنماؤں کو ہلاک کر دیا تھا۔
اس واقعے کے چند ماہ بعد اکتوبر 1984 میں بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو اُن کے سکھ محافظوں نے ہلاک کر دیا تھا۔
دہلی میں مذہب کی بنیاد پر ہونے والے ان ہنگاموں کو گزشتہ چند دہائیوں کے بدترین واقعات میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ فسادات بھارتی حکومت کی جانب سے گزشتہ سال دسمبر میں لاگو کیے جانے والے شہریت قانون کے خلاف ہو رہے ہیں۔
اس قانون کے تحت پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے مذہبی جبر کا شکار چھ اقلیتوں کو بھارت کی شہریت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بھارت کی حزب اختلاف کی جماعتیں اور مسلمان تنظیمیں اسے مسلمانوں کے خلاف قرار دیتے ہوئے مسترد کر چکی ہیں۔
علاوہ ازیں بھارت میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) جس کی بنیاد پر بھارت کے شہریوں کو اپنی شناخت ثابت کرنے کا پابند کیا گیا ہے، کے خلاف بھی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔