قرضوں کا بحران پہ یورپی ممالک کا سربراہی اجلاس

فرینکفرٹ

اجلاس ایک ایسے وقت منعقد ہورہا ہے جب اتحاد کے رکن ممالک میں یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ موجودہ بحران کو معاشی ترقی کو فروغ دینےوالے اقدامات اور ملازمتوں کےنئے مواقع پیدا کرکے ہی ختم کیا جاسکتا ہے

یورپی یونین کے 27 رکن ممالک کے سربراہان کا اجلاس برسلز میں شروع ہوگیا ہے۔ اجلاس کا مقصد رکن ممالک کو درپیش قرضوں کے بحران کا حل تلاش کرنا ہے۔

اجلاس ایک ایسے وقت منعقد ہورہا ہے جب اتحاد کے رکن ممالک میں یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ موجودہ بحران کو معاشی ترقی کو فروغ دینےوالے اقدامات اور ملازمتوں کےنئے مواقع پیدا کرکے ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔

یورپی یونین کے اراکین میں سے جن ممالک کی مالی حالت زیادہ پتلی ہے ان کی اکثریت 'یورو زون' کا حصہ ہے۔ رواں ہفتے ہی پیرس میں قائم تنظیم برائے معاشی تعاون و ترقی (او ای سی ڈی)نے خبردار کیا ہے کہ یورو زون میں شامل ممالک شدید مالی بحران کے دہانے پر کھڑے ہیں۔

فرانس میں سوشلسٹ صدر کے انتخاب اور یونان میں سیاسی عدم استحکام کے زیرِ اثر یورپی یونین کا جھکائو بچت اقدامات کے بجائے اب ایسے اقدامات کی جانب ہوتا نظر آرہا ہے جو معاشی سرگرمیوں کو مہمیز دیں۔

یونان میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں رائے دہندگان نے ان تمام بڑی سیاسی جماعتوں پر عدم اعتماد ظاہر کیا ہے جنہوں نے غیر ملکی بیل آئوٹ پیکج حاصل کرنے لیے بجٹ میں کٹوتیوں کے منصوبے کی حمایت کی تھی۔

انتخابات کے نتیجے میں کوئی جماعت بھی حکومت بنانے کے قابل نہیں ہوسکی جس کے بعد ملک میں ایک بار پھر عام انتخابات کا اعلان کردیا گیا ہے۔ اس سیاسی بحران کے پیشِ نظر ان خدشات میں اضافہ ہورہا ہے کہ یونان، جو مالی طور پر 17 رکنی 'یورو زون' کا سب سے کمزور ملک ہے، جلد ہی یورو زون کو خیر باد کہہ دے گا۔

اگر ایسا ہوا تو یورپی ممالک ایک بڑے مالی بحران کی زد میں آسکتے ہیں اور اسی خدشے کے پیشِ نظر یورپی یونین پر کوئی فوری اور مضبوط قدم اٹھانے کے لیے دبائو بڑھتا جارہا ہے۔

فرانس میں ہونے والا حالیہ صدارتی انتخاب بھی یورپی یونین کی پالیسی پر اثر انداز ہورہا ہے۔ نومنتخب سوشلسٹ صدر فرانسس اولاند کے خیالات جرمن چانسلر اینجلا مرکل کی فکر سے متصادم ہیں جو اول روز سے قرضوں کے بحران کا مقابلہ بچت اقدامات کے ذریعے کرنے کی داعی رہی ہیں۔

یورپین کونسل کے صدر ہرمن وین رومپی کہتے ہیں کہ بحران کا کوئی بھی حل خارج از امکان نہیں ہے۔ لیکن ان کامشورہ ہے کہ معاشی مسائل کے طویل المدتی حل پر غور کرنا چاہیے۔

بدھ کو ہونے والے اجلاس میں معاشی بحران کے جو حل زیرِ غور ہیں ان میں سرِ فہرست 'یورو بونڈ' کا اجرا ہے۔ اس بونڈ کے ذریعے یورپ کی مال دار ریاستیں مالی مشکلات کا شکار یورپی ممالک کی جانب سے لیے جانے والے قرضوں کی ادائیگی کی ذمہ داری لیں گی۔

جرمن چانسلر اس منصوبے کی سخت مخالفت کر رہی ہیں جب کہ فِن لینڈ، ہالینڈ اور آسٹریا کی حکومتیں بھی اس تجویز کی مخالف ہیں۔ لیکن یورپی یونین کے بعض اعلیٰ ترین عہدیدار 'یورو بونڈ' کی تجویز کی پذیرائی کر رہے ہیں جن میں یورپی کمیشن کے سربراہ جوس مینوئل بروسو بھی شامل ہیں۔

یورپی معیشت کو سہارا دینے کے اقدامات پر غور کے علاوہ برسلز میں جمع ہونے والے یورپی رہنما ان بڑے لیکن مالی بحران کا شکار یورپی بینکوں کی مدد کرنے پر بھی غور کریں گے جنہیں حالیہ مالی بحران نے مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔

لیکن اس اجلاس میں کسی بارے میں بھی کوئی حتمی فیصلہ متوقع نہیں بلکہ صرف دستیاب تجاویز پر تبادلہ خیال کے ذریعے اتفاقِ رائے کی کوشش کی جائے گی۔ یونان میں نئے انتخابات کے بعد یورپی رہنمائوں کا ایک اور سربراہی اجلاس آئندہ ماہ جون کے اختتام پر منعقد ہوگا جس میں قرضوں کے بحران کے حل کے لیے کوئی حتمی فیصلہ ہونے کی توقع ہے۔