ایران کے جوہری مذاکرات کی 'ڈیڈ لائن' آن پہنچی

امریکی حکام یہ توقع کر رہے ہین کہ سوئٹزرلینڈ میں ہونے والے مذاکرات منگل کو نصب شب کے آخری لمحے تک جاری رہ سکتے ہیں جب کہ بعض مبصرین کے مطابق اس میں مزید طوالت متوقع ہے۔

ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق معاہدے کے حتمی خدوخال پر اتفاق کے لیے مقرر کردہ وقت منگل کی شب ختم ہو رہا ہے اور امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ اس میں بنیادی اختلافات اب بھی موجود ہیں۔

سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزین میں ہو رہے مذاکرات میں حکام امید اور انتباہ کے ملے جلے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔

امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے "سی این این" کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ "اب بھی کچھ مشکل معاملات درپیش ہیں جن پر ہم کڑی محنت کر رہے ہیں۔ ہم رات بھر اس پر کام کرتے رہے۔"

ادھر امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان میری ہارف نے مذاکرات کی کامیابی و ناکامی کے مساوی امکانات ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ایسے میں جب مصالحت کار متوازن شرائط وضع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، بہت سے معلامات پر اختلافات موجود ہیں۔

لیکن صحافیوں سے فون پر گفتگو میں انھوں نے پیر کو "نیویارک ٹائمز" کی اس خبر کے برعکس بات کی جس میں کہا گیا تھا کہ ایران اپنی افژودہ یورینیم کے ذخیرے کو روس منتقل کرنے کے وعدے سے منحرف ہو گیا ہے۔

میری ہاف نے کہا کہ "آخری 24 گھنٹوں میں کسی بھی طرح معاملے پر انحراف یا اپنی پوزیشن پر اڑے رہنے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔"

یہ خبر ایران کے نائب وزیرخارجہ کے ایک بیان پر مبنی تھی۔ لیکن میری ہارف کا کہنا تھا کہ ایران کا موقف تبدیل نہیں ہوا، اور مصالحت کار بم بنانے کے لیے افژودہ یونیم کی عدم دستیابی کے لیے طریقہ کار وضع کرنے پر کام کر رہے ہیں۔

"ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ایسا معاہدہ کر سکیں جس کے تحت انھیں اپنے ذخیرے کے بڑے حصے سے نجات ملے تاکہ باقی بچ رہ جانے والا ذخیرہ، سینٹری فیوجز کی تعداد اور ان کا معیار اور دیگر لوازمات ہمیں ایک سال کا وقت فراہم کر سکیں گے۔"

یہ ایک سال کا عرصہ وہ وقت ہے جو ایران کو جوہری بم بنانے کے لیے درکار ہوگا۔ فی الوقت بین الاقوامی ماہرین کا خیال ہے کہ ایران دو یا تین ماہ میں یہ جوہری ہتھیار کر سکتا ہے۔ چھ بڑ طاقتیں اس عرصے کو کم از کم ایک سال تک بڑھانا چاہتی ہیں۔

امریکی حکام یہ توقع کر رہے ہین کہ سوئٹزرلینڈ میں ہونے والے مذاکرات منگل کو نصب شب کے آخری لمحے تک جاری رہ سکتے ہیں جب کہ بعض مبصرین کے مطابق اس میں مزید طوالت متوقع ہے۔

لیکن میری ہارف کا کہنا تھا کہ ڈیڈ لائن تبدیل نہیں ہوگی۔

"31 مارچ ڈیڈ لائن ہے۔ اس کا کچھ مقصد ہونا چاہیے۔ 31 مارچ کے بعد کوئی فیصلہ آسان نہیں ہوگا۔"