واشنگٹن: کشمیریوں کا مظاہرہ، خود ارادیت اور آزادی کے حق میں نعرے

کشمیری جھنڈے والے لال رنگ کا لباس پہنے اور ’جسٹس فار کشمیر‘ کا بینر اٹھائے، سندس کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرنے کے لیے آپ کا کشمیری یا مسلمان ہونا ضروری نہیں۔

’’کشمیر کے حق کے لیے میرے دادا لڑے تھے، میرے ابو لڑے اور اب میں لڑ رہی ہوں؛ اور پھر میرے بچے لڑیں گے‘‘۔ یہ تھے سندس کے الفاظ جو اپنے خاندان اور دوستوں کے ہمراہ امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں بھارت کے زیر انتظام کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجتی کے لیے ہونے والے ایک مظاہرے میں شریک تھیں۔

وائٹ ہاؤس کے سامنے ہونے والے اس مظاہرے میں سیکڑوں کی تعداد میں کشمیریوں اور ان کے حامیوں نے شرکت کی۔

پیر کے روز بھارت نے ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے آئین کی دفعہ 370 کو منسوخ کر دیا، جس کے تحت بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی خصوصی ریاستی حیثیت اب ختم کر دی گئی ہے اور اسے مرکزی حکومت کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔

بھارت کے اس حالیہ اقدام پر پاکستان سمیت بین الااقوامی سطح پر بھی رد عمل سامنے آ رہا ہے۔ امریکہ میں نیویارک اور لاس اینجلس میں بھی کشمیریوں کے حق میں مظاہرے کیے گئے ہیں۔

واشنگٹن ڈی سی میں ہونے والے اس احتجاج میں مظاہریں نے کشمیریوں کے حق میں نعرے لگائے اور بھارت کی جانب سے حالیہ فیصلوں کی مذمت کی۔ انہوں نے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر کشمیریوں کی حق خودارادیت اور کشمیر کی آزادی کے الفاظ درج تھے۔

مظاہرے میں شریک عمر کا کہنا تھا کہ واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاوس کے سامنے مظاہرہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کشمیریوں کی آواز یہاں کی حکومت تک پہنچ سکے اور کشمیریوں کی مدد ہو سکے۔ بقول ان کے، ’’کشمیری اس وقت عالمی برادری کی طرف دیکھ رہے ہیں اور مدد کے خواہاں ہیں‘‘۔

احتجاج میں شریک مظہر کا کہنا تھا کہ یہاں وائٹ ہاؤس کے سامنے جمع ہونے کا مقصد صدر ٹرمپ کو یہ یاد دلانا ہے کہ انہوں نے پاکستان کے وزیر اعظم عمران سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی ہے؛ اور ’’اب وقت آگیا ہے کہ ثالثی کے معاملے پر پیش رفت حاصل کی جائے‘‘۔

منتظمین نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ احتجاج کا یہ سلسلہ جاری رکھیں گے اور اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل سے اپیل کی کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کرائے۔

بھارت کی حکمران جماعت، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اس فیصلے پر جموں و کشمیر کے لوگ سراپا احتجاج ہیں۔ وادی میں اب بھی کہیں کہیں بھارت مخالف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ سیکورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں پچاس افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ کسی بھی نا خوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے وادی میں اب بھی ہزاروں سیکورٹی اہلکار تعینات ہیں۔

بھارتی حکومت کا مؤقف

بھارتی حکومت کا مؤقف یہ ہے کہ سرحد پار سے دراندازی اور سیکورٹی صورت حال کے پیش نظر جموں و کشمیر کو یونین ٹیریٹری بنایا جائے گا۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے اور یہ کہ وہ یہ توقع نہیں رکھتا کہ دیگر ممالک بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت کریں اور اس میں مداخلت کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی۔

بھارت کا کہنا ہے کہ حالیہ فیصلوں سے جموں و کشمیر کو ترقی کے مواقع میسر آئیں گے اور وہاں کے لوگ ان فلاحی پروگراموں سے استفادہ کر سکیں گے جو دوسری ریاستوں کو حاصل ہیں۔

پاکستان کا رد عمل

نئی دہلی کی جانب سے بھارتی کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد بھارت اور پاکستان کے تعلقات بھی ایک بار پھر کشیدہ ہو گئے ہیں۔پاکستان نے بھارت کے اس اقدام کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔

کشمیریوں کا رد عمل

جموں و کشمیر کی پیپلز ڈیموکرٹیک پارٹی کے دو اراکین نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف اسمبلی میں شدید احتجاج کیا۔ سابق وزیر اعلٰی جموں و کشمیر محبوبہ مفتی نے ایک ٹوئٹ کرکے کہا کہ آج کا دن بھارتی جمہوریت کا ایک سیاہ دن ہے۔ اور یہ اقدام غیر قانونی و غیر آئینی ہے۔ کشمیر کی علاقائی پارٹیوں کا کہنا ہے کہ دفعہ 370 کا خاتمہ جموں و کشمیر اور لداخ کے عوام کے خلاف جارحیت ہے۔

اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹریس نے بھارت اور پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ تحمل و برداشت سے کام لیں۔

امریکہ

امریکہ نے کہا ہے کہ وہ کشمیر کے تنازع پر پاکستان اور بھارت کے درمیان براہِ راست مذاکرات کی حمایت کرتا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر کی صورتِ حال پر پاکستان اور بھارت پُر امن رہیں اور تحمل کا مظاہرہ کریں۔ امریکہ نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کا احترام کرے۔ اور کہا ہے کہ امریکہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے پیدا ہونے والی صورت حال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔