پاکستان کے موقر انگریزی روزنامہ 'ڈان' کے اسلام آباد دفتر کا نامعلوم افراد نے گھیراؤ کیا۔ گھیراؤ کرنے والے مظاہرین اخبار کی جانب سے لندن برج حملے میں ملوث عثمان خان کو پاکستانی نژاد برطانوی شہری قرار دیئے جانے پر احتجاج کر رہے تھے۔
یہ احتجاج پاکستان کے وفاقی وزراء کی جانب سے اس خبر کے اجراء پر تحفظات کے بیانات جاری کرنے کے بعد کیا گیا ہے۔
معروف انگریزی روزنامہ نے ہفتے کے روز اپنی ایک خبر میں برطانوی حکام کے حوالے سے لکھا تھا کہ 28 سالہ عثمان خان پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہیں جنہوں نے اپنا لڑکپن پاکستان میں گذارا تھا اور واپس جانے کے بعد انٹرنیٹ پر انتہا پسندانہ خیالات کا اظہار شروع کر دی تھا۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے لندن برج کے قریب ایک چاقو بردار شخص نے خاتون سمیت دو افراد پر وار کر کے انہیں ہلاک اور تین کو زخمی کر دیا تھا۔ برطانوی پولیس نے حملہ آور کی شناخت عثمان خان کے نام سے ظاہر کی جسے مسلح پولیس اہل کاروں نے گولیاں مار کر موقع پر ہی ہلاک کر دیا تھا۔
عثمان خان کو اس سے قبل شہر کی سٹاک ایکسچینج پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے کے الزام میں جیل بھیجا گیا تھا اور وہ گزشتہ دسمبر سے مشروط ضمانت پر جیل سے باہر تھے۔ 2012 میں انھیں 'عوام کی حفاظت' کی غرض سے غیر معینہ مدت کے لیے قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
سوموار کی شام اسلام آباد کے زیرو پوائنٹ پر واقع روزنامہ ڈان کے دفتر کے باہر اچانک کچھ لوگ نمودار ہو گئے جن میں سے زیادہ تر نوجوان تھے اور اخبار کے خلاف نعرے لگانا شروع کر دیئے۔
لاؤڈ اسپیکر پر کی جانے والی تقاریر میں ڈان اخبار کی جانب سے عثمان خان کو پاکستانی نژاد برطانیوی شہری لکھنے کو قومی مفادات کے خلاف قرار دیا گیا اور اخبار کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔ اس دوران اڑھائی گھنٹے تک ڈان اخبار اور ڈان ٹی وی کے ملازمین دفتر میں محصور رہے۔
مظاہرین نے جو بینرز اٹھا رکھے تھے، ان پر کسی تنظیم کا نام نہیں تھا اور نہ ہی انہوں نے اپنی شناخت کسی تنظیم کی حیثیت سے کروائی۔
پاکستان تحریک انصاف کی شریں مزاری نے اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ڈان کا ایک مخصوص ایجنڈا ہے۔
Dawn has its own agenda - read The News where their UK based reporter has given details of the man%27s life incl the fact he was born in UK! https://t.co/R8HF4ZBfHu
— Shireen Mazari (@ShireenMazari1) December 1, 2019
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمن بلاول بھٹو زرداری نے روزنامہ ڈان کے گھیرائو کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج کے نام پر کسی کو بھی آزادی صحافت پر حملے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔
اپنے بیان میں بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ میڈیا کو دباؤ میں ڈالنا اور ڈکٹیٹ کرنا جمہوری اصولوں کے منافی ہے جسے برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت مسلسل آزادی صحافت پر حملہ آور ہے اور جمہوری، بنیادی انسانی حقوق اور میڈیا کی آزادیاں تک صلب کر رکھی ہیں۔
پیپلز پارٹی کے سربراہ نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت میں ایک گروپ نے آ کر میڈیا ہائوس کا راستہ بند کردیا اور حکومت تماشہ دیکھتی رہی۔ ان کے مطابق اخبار کا گھیرائو صحافت کی آواز دبانے کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اور نگزیب نے ڈان گروپ اسلام آباد کے دفتر پر نامعلوم افراد کے محاصرے کی مذمت اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صحافتی ادارے پر دھاوا بولنے کے واقعہ کی اعلی سطحی تحقیقات کرائی جائیں اور اس کے ذمہ داروں کو بے نقاب کیا جائے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مرتضیٰ سولنگی نے ٹویٹ کرتے ہوئے اس واقعہ پر تشویش کرتے ہوئے کہا ہے مظاہرین کو روکنا حکومت کی ذمہ داری تھی۔
It doesn’t matter who have sent them and what their motives are. It is the responsibility of @ImranKhanPTI administration to keep the hooligans away from the offices of #DAWN. Allowing them to harass media houses only means allowing fascist takeover. @CPJAsia @amnestysasia @hrw
— Murtaza Solangi (@murtazasolangi) December 2, 2019
سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کے چیئرمین مصطفی نواز کھوکھر نے اخبار کے دفتر کے گھیراؤ کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام سے معاملے پر رپورٹ طلب کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں حکام اس معاملے پر اراکین کو بریف کریں۔