داتا گنج بخش کے عرس کی مذ ہبی حیثیت اپنی جگہ مسلّم ہے مگر ساتھ ہی ساتھ یہ لاھور کا سب سے بڑا ثقافتی تہوار بھی سمجھا جاتا ہے۔ اسلامی مہینہ صفر المظفر شروع ہوچکا ہے۔ داتا صاحب کا عرس اگرچہ صفر کی اٹھارہ تاریخ سے ہوتا ہے مگر اس کی تیاریاں اس ماہ کا چاند دیکھنے کے ساتھ ہی شروع ہوئیں اوریہ میلہ بھی قبل از وقت شروع ہو چکا ہے۔
یہ روایتی میلہ داتا گنج بخش کے مزار سے مینارِ پاکستان تک کے تمام علاقے پر محیط ہوتاہے۔ عقیدت مند مزار پر فاتحہ خوانی اور دعا اور میلہ میں خریداری کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں موجود تفریحی سہولتوں اور سرکس وغیرہ سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔
جو لوگ برس ہا برس سے داتا صاحب کے مزار پر حاضری دیتے ہیں اُن کا کہنا ہے کہ عرس کے دِنوں میں لاھور کی آبادی ڈیڑھ گنا ہوجاتی ہے۔ اگرچہ اس کے سرکاری اعداد وشمار موجود نہیں ہیں لیکن اس حقیقت کو سب مانتے ہیں کہ عرس کے دِنوں میں اندرونِ ملک سے اور غیر ممالک سے بھی بھاری تعداد میں لوگ لاھور آتے ہیں اور عُرس کی تقریبات میں شریک ہوتے ہیں۔
اظہر مجید کا شمار ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جن کا خاندان کئی نسلوں سے داتا گنج بخش سے خصوصی عقیدت رکھتا ہے۔ یہ نہ صرف مزار پر باقاعدگی سے حاضری دیتے ہیں بلکہ سارا سال انتہائی جوش و خروش سے رضاکارانہ سرگرمیوں میں شریک رہتے ہیں۔
اظہر مجید نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ داتا کے مزار کی رونقیں اُسی طرح قائم ہیں اگر چہ اُن کے بقول سکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر بہت سے اقدامات کیے گئے ہیں جن سے زائرین کو مشکلات کا سامنا بھی ہوتا ہے۔ اِن اقدامات میں مختلف مقامات پر چیکنگ، سکیورٹی گیٹس کی تنصیب اور کئی راستوں کا بند کیا جانا شامل ہے۔
اظہر مجید نے کہا کہ نو محرم الحرام کو پنجاب کے وزیر اعلیٰ جب مزار کو غسل دیے جانے کی تقریب میں شرکت کے لئے آئے تو تاریخ میں پہلی مرتبہ سکیورٹٰی کے پیش نظر مزار کے گرد موجود برآمدے کو خالی کرانا پڑا۔ اُنہوں نے بتایا کہ یہ برآمدہ ہر وقت زائرین سے بھرا رہتا ہے اور اُن کےبقول بچپن سے اب تک اُن کی حاضری کے دوران اُنہوں نے کبھی بھی اس برآمدے کو خالی ہوتے نہیں دیکھا تھا۔
ایک سوال کے جواب میں اظہر مجید نے کہا کہ یہ مجبوریاں ہیں اور ایسی مجبوریاں عقیدت مندوں کو داتا دربار آنے سے نہیں روک سکی ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ اس درگاہ پر صرف مسلمان ہی نہیں آتے بلکہ یہاں اُنہوں نے ہندووں، سکھوں اور پارسیوں تک کو اظہار عقیدت کے طور پر یا منت ماننے کےلئے آتے دیکھا ہے۔ اظہر مجید نے بتایا کہ بعض مسیحی بھی یہاں آکر انجیل پڑھتے دیکھے گئے ہیں۔
داتا دربار کی انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے وائس آف امریکہ کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ انتظامیہ کی طرف سے مزار سب کے لیے کھلا ہے۔ سکیورٹی حوالے سے بات کرتے ہوئے اُنہوں نے تسلیم کیا کہ کافی لوگوں کی شکایات اُن تک پہنچی ہیں اور وہ کوشش کرکے زائرین کی مشکلات کو کم بھی کرتے ہیں مگر اُن کے بقول اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی سکیورٹی کی دیکھ بھال ایک انتہائی کٹھن کام ہے جو انتظامیہ کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں اس عہدیدار نے کہا کہ مزار سے مینارِپاکستان تک بہت بڑا میلہ لگا ہوا ہے اور یہاں بھی داتا دربار میں زائرین گنے نہیں جاسکتے لہذا اگر انتظامیہ کچھ سختیاں کررہی ہے تویہ لوگوں کی حفاظت کے لیے ہے ۔
واضح رہے کہ داتا گنج بخش کی تین روزہ تقریبات ہوتی ہیں اور ان کے دوران میں مزار پر چادر پوشی کا سلسلہ جاری رہتا ہے، زائرین فاتحہ خوانی کرتے ہیں، سلام پیش کرتے ہیں، منتیں مانتے ہیں اور ساتھ ہی مزار سے متصل مسجد کے احاطے میں تینوں دن مجالسِ مذاکرہ منعقد ہوتی ہیں جن میں دین ِ اسلام اور تصوف کے موضوعات کے ساتھ ساتھ سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کے سیرت وکردار پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے۔ مزار پر دودھ کی سبیل لگتی ہے اور تینوں دن سماع کی محفلیں ہوتی ہیں جن میں شرکت کرنا ہر قوال پارٹی اپنے لیے اعزاز سمجھتی ہے۔
لوگ عموماً پیدل اور ننگے پاؤں اپنے گھروں سے مزار تک آتے ہیں اور شب بیداری کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ لاھور کے لوگ اپنے شہر سے محبت کے لیے مشہور ہیں مگر داتا گنج بخش سے اُن کی عقیدت کا یہ عالم ہے کہ یہ اپنے محبوب شہر کو داتا کی نگری کہتے ہیں۔
پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ اس برس سکیورٹی خدشات کی وجہ سے مزار کو غسل دینے کی تقریب کے موقع پرمزار کے گرد برآمدے کو خالی کروانا پڑا