نفیسہ ہود بھائے
جمعے کے دن سندھ حکومت نے احکامات جاری کیے کہ ان چار افراد کی رہائی روک دی جائے جن کو سندھ ہائی کورٹ نے ایک روز قبل ڈینئل پرل کے قتل میں بری الذمہ قرار دیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
واضح رہے کہ جمعے کو امریکہ نے عدالت کے اس فیصلے کو ''دہشت گردی کے متاثرین کے لیے توہین آمیز'' قرار دیا تھا۔
یاد رہے کہ پرل کے قتل کی حکمت عملی ملزم احمد عمر شیخ نے ترتیب دی تھی اور اس جرم کی پاداش میں انھیں 2002ء میں سزائے موت دی گئی، جو بعد میں عمر قید میں تبدیل کی گئی تھی۔
عمر شیخ کو 1999ء میں بھارت کی ایک جیل سے اُس وقت آزاد کیا گیا جب ایک بھارتی طیارے کو نئی دہلی سے اغوا کر کے کابل لے جایا گیا اور اس کے عوض بھارت سے مسعود اظہر اور احمد عمر سعید شیخ کی رہائی طلب کی گئی۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ پرل ایک کہنہ مشق صحافی تھے اور اُن کا قتل تمام پاکستانی صحافیوں کے لیے صدمے کا باعث تھا۔ انھوں نے کہا کہ ایک ایسے ملک میں جہاں صحافیوں کے قاتلوں کو سزا نہیں ملتی، یہ بات فخر کا باعث ہے کہ پاکستان نے پرل کے قاتلوں کو سزا دی۔
شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ پرل کے قتل میں ملوث افراد کو سندھ ہائی کورٹ نے ایک ایسے وقت رہا کرنے کا فیصلہ کیا جب ملک کرونا وائرس وبا کی لپیٹ میں ہے اور جس کی وجہ سے شک و شبہات نے جنم لیا ہے کہ اس وقت یہ فیصلہ کیوں کیا گیا۔
دوسری جانب، آئی ایس پی آر کے برگیڈیئر آصف ہارون کا کہنا ہے کہ پرل کے قتل میں ملوث افراد کو رہا کرنا سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ تھا اور اس قسم کے فیصلے انھوں نے ماضی میں بھی کیے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ممکنہ طور پر عدالت پر کوئی دباؤ ہوگا جس کی وجہ سے انھوں نے یہ فیصلہ کیا۔
لیکن، برگیڈیئر آصف نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد یہ فیصلہ سندھ کے صوبے میں کیا گیا اور اس کا وفاق سے کوئی تعلق نہیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ پرل کیس میں چار افراد کی رہائی کو روکنے کا فیصلہ پاکستان نے آزادانہ طور پر کیا ہے اور اس کا امریکہ کی طرف سے مذمت کے بیان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔