لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے سابقہ دو وزرائے اعظم نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے ساتھ ساتھ ڈان سے منسلک صحافی، سیرل المیڈا کو بھی 8 اکتوبر کو بغاوت کے مقدمے میں عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے سیرل المیڈا کے عدالت میں پیش نہ ہونے پر ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دئے ہیں۔
پاکستانی ٹویٹر پر آج سیرل امیڈا کے حق میں ٹرینڈ #IStandWithCyril پہلے نمبر پر رہا۔
پاکستان کے نامور صحافی، تجزیہ نگار، وکلا اور ایکٹوسٹ سیرل المیڈا کے حق میں اظہار خیال کرتے رہے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے افراسیاب خٹک نے لکھا کہ آزادی اظہار اور میڈیا کی آزادی پر حملہ جمہوریت کو آہستہ آہستہ کنٹرول کرنے کا حصہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاسی پارٹیاں اس سے صرف نظر تو کر سکتی ہیں مگر اس سے ان کا ہی نقصان ہو گا۔
Attack on freedom of expression & media freedoms has been the hallmark of the creeping coup for further controlling the already controlled democracy. Political parties can ignore the attack at their own peril.#IStandWithCyril
— Afrasiab Khattak (@a_siab) September 24, 2018
عاصمہ شیرازی نے لکھا کہ ایک صحافی کو رپورٹ اور انٹرویو کرنے پر بغاوت کا مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ یہ قانون اور آئین کے ساتھ مذاق ہے۔
ماریانہ بابر نے انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری کو لکھا کہ ایک سابقہ صحافی کے طور پر آپ سے امید ہے کہ سیرل کے حقوق پامال نہیں کئے جائیں گے۔ انہوں نے لکھا کہ آزادی اظہار کو دبانے کے خلاف شیریں مزاری کو آواز اٹھانی چاہئے۔
@ShireenMazari1 As a former journalist hope you will not shy away from ensuring that @cyalm rights are not violated.Please raise a voice for end to suppression of free speech.#IStandWithCyril
— Mariana Baabar Pashteen (@MarianaBaabar) September 24, 2018
صحافی وینگس نے والٹئیر کا قول نقل کیا کہ اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کا اصل حکمران کون ہے تو بس یہ دیکھ لیں کہ کس پر آپ کو تنقید کی اجازت نہیں ہے۔
انہوں نے لکھا کہ نئے پاکستان میں پرانے پاکستان کی طرح ہی تقریر کی آزادی پر کچھ قدغنیں ہیں۔
ایکٹوسٹ سلیم نے لکھا کہ یورپ کے تاریک دنوں میں توہین مذہب اور غداری اختلافی آوازوں کو دبانے کے ہتھیار ہوا کرتے تھے۔ 2018 کے پاکستان میں یہ دونوں پوری شدت سے استعمال ہو رہے ہیں۔
Blasphemy and Treason were the two weapons in Dark Ages to silence the dissenting voices. Both are being widely used in 2018 ka Pakistan. #IStandWithCyril #ReleaseHayatPreghal
— Saleem (@memzarma) September 24, 2018
انسانی حقوق کے کارکن اسامہ خلجی نے لکھا کہ آئین آزادی اظہار، میڈیا کی آزادی اور معلومات کے حصول کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔ صرف اس وجہ سے کہ صحافی کی دی گئی خبر سے کسی کو اتفاق نہیں ہے اسے نشانہ بنانا فاشزم ہے۔
The Constitution exists to protect rights of freedom of speech & press freedom under Article 19,& the right to information under article 19-A. Initiating a witch hunt against a journalist just because some don’t agree with the matter he reported is pure fascism. #IStandWithCyril
— Usama Khilji (@UsamaKhilji) September 24, 2018
قانون دان اور تجزیہ نگار ریما عمر نے لکھا کہ یہ افسوس ناک ہے کہ سیاست دانوں، ججوں اور ٹی وی کے تجزیہ نگاروں پر غداری کے الزامات کو اظہار پر قدغنیں لگانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اداروں کی تضحیک بالکل بھی غداری میں شمار نہیں ہوتی بلکہ آئین کو جبراً معطل کرنا بغاوت ہے۔
نوجوان صحافی عمر علی نے لکھا کہ کسی بھی صحافی کا سابقہ وزیراعظم کو انٹرویو کرنے پر حراست میں لینے یا بغاوت کا الزام لگانا کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہے، صحافت جرم نہیں ہے۔
Totally unacceptable for a journalist to be threatened with arrest and treason for interviewing a former prime minister. Journalism is NOT a crime. #IStandWithCyril
— Umer Ali (@IamUmer1) September 24, 2018