سائبر حملوں کی ایک نئی لہر نے یوکرین، روس اور ان ملکوں کی سرحدوں سے باہر کے علاقوں کیا اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور یہ وائرس یورپ اور بحر اوقیانوس بھر میں سرکاری اور کاروباری کمپیوٹر وں کا اپنا نشانہ بنا رہا ہے۔
یوکرین کے بینک، سرکاری دفاتر اور ہوائی اڈے سائبر حملوں کے اولین اہداف میں شامل ہیں۔
یوکرین کے نائب وزیر أعظم پاولو روزینکو نے اپنے کمپیوٹر کی سکرین کی ایک تصویر ٹوئٹ کی ہے جس میں وہ سیاہ دکھائی دے رہی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ حکومتی صدر دفتر کا کام ٹھپ پڑا ہے۔
کئی بین الاقوامی کمپنیوں نے منگل کے روز بتایا کہ وائرس سے ان کا کام بھی متاثر ہوا ہے۔ ان کمپنیوں میں امریکہ کی مرک فارما سیوٹیکل کمپنی، روس کی روزنفٹ آئل ، ڈنمارک کی ایک بڑی جہاز راں کمپنی اے پی مولر مارسک، برطانیہ کی ایک بڑی اشتہاری کمپنی ڈبلیو پی پی اور فرانسیسی انڈسٹریل کمپنی گوبین شامل ہیں۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین نے سائبر حملے میں استعمال کیے جانے والے وائرس کی شناخت رین سم ویئر سے کی ہے ۔ یہ ایک ایسا وائرس ہے جو کمپیوٹر کے نظام کو یرغمال بنا لیتا ہے اور اس وقت تک کمپیوٹر کو کام کرنے نہیں دیتا جب تک اسے تاوان ادا کردیا نہیں جاتا ۔
امریکی محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی نے کہا ہے کہ وہ اس حملے کا جائزہ لے رہا ہے اور اپنے بین الاقوامی اور مقامی شراکت داروں کے ساتھ را بطے میں ہے۔
برطانیہ کے وزیر دفاع مائیکل فیلن نے اس پہلے لندن کے چیتھم ہاؤس پالیسی انسٹی ٹیوٹ میں ایک کانفرنس کی میزبانی کرتے ہوئے کہا تھا کہ برطانیہ سائبرسیکیورٹی کے خطرات کا کس طرح مقابلہ کر نے اور اپنی سائبر سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے دو ارب 40 کروڑ ڈالر خرچ کر رہا ہے۔
یورپی یونین کے سائبر کرائم سے متعلق مرکز نے کہا ہے کہ جو کوئی بھی سائبر حملے سے متاثر ہوا ہے، اسے چاہیے کہ نیشنل پولیس کے پاس اس جرم کی رپورٹ درج کرائے اور وہ ہیکرز کو ہر گز رقم ادا نہ کریں۔