جوہری تحفظ کانفرنس میں پاکستان توجہ کا محور نہیں ہو گا: مبصرین

  • ندیم یعقوب

جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت کا حامل پاکستانی میزائل شاہین تھری (فائل فوٹو)

عالمی سطح پر پاکستان کے جوہری مواد اور ٹیکٹیکل ہتھیاروں یا میدان جنگ میں استعمال کے لیے تیار کیے جانے والے ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے مگر پاکستان کا موقف ہے کہ یہ اس کے دفاع کا حصہ ہیں۔

امریکی ماہرین کا خیال ہے کہ جمعرات سے امریکی دارالحکومت میں شروع ہونے والی جوہری سلامتی کی سربراہ کانفرنس میں پاکستان پر خصوصی توجہ نہیں دی جائے گی بلکہ دنیا بھر میں جوہری مواد کے تحفظ کے لیے اقدامات پر بحث کی جائے گی۔

جوہری سلامتی کی سربراہ کانفرنس کا دو روزہ اجلاس جمعرات سے واشنگٹن ڈی سی میں منعقد ہو رہا ہے۔

دنیا کے 52 ممالک کے وفود اس کانفرنس میں شرکت کریں گے جس کے لیے سکیورٹی اور ٹریفک کے خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں۔

اس سربراہ کانفرنس کا آغاز صدر براک اوباما نے 2010ء میں کیا تھا اور اس کا مقصد دنیا کو جوہری مواد کے ممکنہ خطرات سے محفوظ بنانا ہے۔ اس کا پہلا اجلاس واشنگٹن ڈی سی، دوسرا 2012ء میں جنوبی کوریا کے دارالحکومت سئیول اور تیسرا 2014ءمیں دی ہیگ میں منعقد ہوا تھا۔ جمعرات سے شروع ہونے والا اجلاس اس کانفرنس کے سلسلے کا آخری اجلاس ہوگا۔

سربراہ اجلاس واشنگٹن ڈی سی کے کنوینشن سنٹر میں ہوگا اور جمعرات کو صدر براک اوباما شرکت کے لیے آنے والے سربراہان کے لیے وائٹ ہاؤس میں اعشائیے کا اہتمام کریں گے۔

واشنگٹن میں جوہری ہتھیاروں کے بارے میں آگہی کے لیے کام کرنے والے ادارے آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن سے منسلک ماہر کیلسی ڈیونپورٹ کہتی ہیں کہ اس چوتھے اور آخری اجلاس میں عالمی رہنما خاص طور پر جوہری ہتھیاروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے بارے میں اقدامات کا جائزہ لیں گے۔ وہ کہتی ہیں کہ شرکا کچھ عملی اقدامات کی بھی توثیق کریں گے تاکہ مستقبل میں عالمی ادارے جوہری سلامتی کی کانفرنس کے کام کو جاری رکھ سکیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کیلسی نے کہا کہ “ اس کانفرنس کی وجہ سے عالمی سطح پر دہشت گردی کے لیے جوہری مواد کے ممکنہ استعمال کے خطرات کی جانب توجہ مبذول ہوئی ہے ۔ اس کے علاوہ اس امر پر بھی توجہ دی گئی ہے کہ جوہری پاور پلانٹس پر حملہ کسی ایٹمی حادثے کا پیش خیمہ بن سکتا ہے یا پھر انتہا پسند گروہ ایٹمی مواد کو استعمال میں لا کر تاباکار خطرہ پیدا کر سکتے ہیں”۔

پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف اس سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے واشنگٹن آنے والے تھے مگر گزشتہ ہفتے لاہور میں بم حملے اور اسلام آباد میں چند مذہبی گروہوں کے دھرنے کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال کے پیش نظر انہوں نے اپنا دورہ منسوخ کر دیا ۔ اب ان کے معاون خصوصی طارق فاطمی کانفرنس میں شرکت کریں گے۔

عالمی سطح پر پاکستان کے جوہری مواد اور ٹیکٹیکل ہتھیاروں یا میدان جنگ میں استعمال کے لیے تیار کیے جانے والے ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے مگر پاکستان کا موقف ہے کہ یہ اس کے دفاع کا حصہ ہیں۔

وائس آف امریکہ کے ایک سوال کے جواب میں واشنگٹن میں واقع تھنک ٹینک کارنیگی انڈاؤمنٹ فار انٹرنیشنل پیس میں نیوکلیئر پالیسی کے ماہر ٹوبی ڈالٹن نے کہا کہ چونکہ اس اجلاس میں دنیا کے ہر حصے میں جوہری مواد کے تحفظ کے لیے اقدامات کی بات ہوگی اس لیے پاکستان پر خصوصی توجہ نہیں دی جائے گی۔

تاہم انہوں نے کہا “ پاکستان میں خطرے کے بارے میں شدید تشویش ہے کیونکہ وہاں ایسے گروہ موجو د ہیں جو پاکستان میں آئے دن حملے کر رہے ہیں۔ اور کراچی میں فوجی بیس پر حملے میں تو حملہ آوروں کو بیس کے اندر سے تعاون حاصل تھا۔ اس سے جوہری مواد اور ایٹمی ہتھیاروں کی تنصیبات کو خطرے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں”۔

کیلسی ڈیونپورٹ کہتی ہیں بیلجیئم میں حالیہ حملے کے بعد ایسی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ دہشت گرد وہاں جوہری پلانٹس سے متعلق معلومات اکٹھی کر رہے تھے جس سے تمام رہنماؤں پر دباو بڑھے گا کہ وہ نئے ابھرنے والے ایٹمی خطرات سے نمٹنے کے لیے فوری اور تسلسل سے اقدامات اٹھاتے رہیں۔

پاکستان کے جوہری پروگرام کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ پاکستان نے اپنے جوہری اثاثوں کو محفوظ بنانے کے لیے کئی اہم اقدامات اٹھائے ہیں جن میں توانائی کے عالمی ادارے کے قوائد وضوابط کے تحت ایٹمی پلانٹس اور تنصیبات پر کام کرنے والے اہلکاروں کی تربیت شامل ہے۔

گزشتہ ہفتے پاکستان نے جوہری مواد کے تحفظ سے متعلق 2005ء کے ایک عالمی معاہدے کی توثیق کی ہے جس کی رو سے پاکستان اپنے سویلین جوہری مواد کو محفوظ بنانے اور اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے عمل کے دوران اسے محفوظ رکھنے کا پابند ہوگا۔

ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کی جانب سے اس معاہدے کی توثیق ایک اہم کامیابی ہے۔

امریکی ماہرین کا خیال ہے کہ جوہری سلامتی کی سربراہ کانفرنس کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2010ء میں بتیس ممالک کے پاس ایٹمی مواد موجود تھا مگر عالمی کوششوں کی بدولت اب یہ تعداد کم ہو کر چوبیس رہ گئی ہے اور اس کا مسقبل میں بھی کافی مثبت اثر پڑے گا۔